قادیانی اعتراض نمبر 1
کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ خاتم کی اضافت جمع کی طرف ہو اور وہاں اس کا معنی آخری آیا ہو ، یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا
قادیانی اعتراض کا جواب
خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔
چشمہ معرفت صفحہ 318 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333

یہاں ” خاتم ” کی اضافت ” جمع ” کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے ” آخری خلیفہ ” واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے۔
قادیانی اعتراض نمبر 2
*” ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ، ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔”
قادیانی اعتراض کا جواب
آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ، غور سے پڑھیے گا۔
والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنه قوله تعالیٰ خاتم النبیین أی آخرھم
تاج العروس
خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بولا جائے ) اور اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔
تاج العروس جلد 32 صفحہ 45
وختام القوم وخاتَمھم وخاتِمھم آخرھم
لسان العرب
"جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بولا جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری آدمیپھر آگے لکھا ہے "ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین أی آخرھم ” خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی۔
لسان العرب جلد 12 صفحہ 162
وتسمیة نبینا خاتم الانبیاء لآن الخاتم آخر القوم
کلیات ابی البقاء
ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا ، کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں۔
کلیات ابی البقاء صفحہ 431
قادیانی اعتراض نمبر 3
ہم نے پوچھا تھا کوئی ایسا حوالہ دکھاؤ جہاں” خاتم ” کی اضافت ” جمع ” کی طرف ہو ، تم نے” خاتم القوم ” دکھایا ، یہ ” قوم ” تو واحد ہے جمع نہیں ، اسکی جمع تو ” اقوام ” آتی ہے.”
قادیانی اعتراض کا جواب
قوم واحد نہیں بلکہ "اسم جمع” ہے ، قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ، اس لئے قران کریم اور جہاں بھی ” قوم " کا لفظ آیا ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی لائیں گئے ہیں ، تاج العروس میں جہاں ” خاتم القوم ” لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے ” آخرھم " یعنی انکا آخری ،یہاں ” ھم " کی ضمیر ” قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ” قوم " جمع ہے
، آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ اسلام کے بارے میں آیا ہے کہ
لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔
سورۂ الاعراف 59
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اسکے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
اس جگہ نوح علیہ اسلام فرماتے ہیں ” یاقوم ” اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں ، ” اعبدوا " ، ” مالکم " اور ” علیکم " کے ساتھ ، ثابت ہوا قوم جمع ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے
وما ارسلنا من رسول الابلسان قومه لیبین لھم
سورۂ ابراھیم 4
نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے والا جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان کے لئے ( اللہ کی بات ) کھول کر بیان کر سکے
یہاں قوم کا ذکر کر کے ” لیبین لھم " میں ” ھم " کی ضمیر جمع لائی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔
لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فلبث فیھم الف سنة الا خمسین عاما
سورۂ العنکبوت 14
پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسلام کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار سال
یہاں بھی ” قوم " کا ذکر کرکے فرمایا ” فیھم " اور یہ ” ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو قوم کی طرف لوٹائی گئی۔
قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ، اور ” اقوام ” اسکی جمع الجمع ہے۔
قادیانی اعتراض نمبر 4
عرب محاورے میں جہاں بھی ” خاتم " کی اضافت ” جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ، خاتم الفقہاء یا خاتم المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ، کیا انکے بعد محدثین ، فقہاء ، مفسرین آنا بند ہو گئے تھے ؟
قادیانی اعتراض کا جواب
” اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بولا ہے تو چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ، فقیہ ، یا مفسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
نیز یہاں تو سب سے زیادہ ” افضل " والا معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے گے ، اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے بارے میں ” خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین ” لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟
سب آخری مفسر ، سب سے افضل مفسر ، یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر بنے گے ؟
آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ، ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ، اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا مفسرین سے بڑا ہو ، لیکن اللہ عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے ” خاتم النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا اللہ کو علم ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے والا۔
قادیانی اعتراض نمبر 5
جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم الاولاد کا مطلب آخری اولاد لیا ہے تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی
قادیانی اعتراض کا جواب
خاتَم اور خاتِم کا معنی*پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔
صاحبِ لسانُ العرب علام ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں یہ تشریح کی ہے
والخَتُمُ ، الخَاتِم ، الخَاتَمُ ، والخَيْتَامُ كُلَّها بعنى واحدٍ و معناها أخيرها
اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے والا کہتے ہیں خِتامُ الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى، أخير الوادى
-وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہےاور مزید لکھتے ہیں کہ
خِتَامُ القوم خاتِمُهُمْ و القوم وخَاتَمُهُم أخرهم
لسانُ العرب جلد 12 صفحہ 164
2۔ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم – والخاتَم والخاتِم:من أسماه النبىﷺ
معناہ: آخر الانبیاء :وقال اللہ تعالی خاتَم النبین
تہذیب اللغہ جلد 7 صفحہ 316
لسانُ العرب جلد12 صفحہ 164
(تا كے زیر سے) خاتِم اور (تا کے زبر سے) خاتَم دونوں کا معنی آخر الانبیاء ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا خاتَم النبین
معلوم ہوا خاتَم هو یا خاتِم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی انتہا ، جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں ،ختام، اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں
یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی فرماتا "خاتم النبین” "آخرالنبین” سب نبیوں کے آخر میں آنے والا اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے
اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم کے معنی اور ہیں ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم اللہ کے محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔
خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت
معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔
خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے
قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔
وجہ نمبر 1
مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔

حقیقة الوحی خزائن جلد 22 صفحہ 70
ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا صاحب کی کون سی بات درست ہے۔
وجہ نمبر 2
میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا

روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479
مرزا صاحب کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔
وجہ نمبر 3
اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ،حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔
وجہ نمبر 4
یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔
اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب کی مہر سے مرزا صاحب کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟
یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔