قادیانیوں کا باطل استدلال
قادیانی ابن ماجہ کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے اور حضورﷺ کے بعد قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔
آیئے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلی حدیث پر قادیانی اعتراض اور علمی جواب
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ .
ترجمہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا: جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا ۔
ابن ماجہ حدیث نمبر 1511، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ
قادیانی اس روایت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری نہ ہوتی ختم ہوچکی ہوتی تو حضورﷺ یہ کیوں فرماتے کہ اگر ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔ آپﷺ کا اس طرح فرمانا ہمیں بتاتا ہے کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔
قادیانیوں کے باطل استدلال کے جوابات
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت موجود ہے جو اس روایت کی واضح تشریح کرتی ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ .
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۱؎۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ
اس روایت سے پتہ چلا کہ حضورﷺ کے صاحبزادے اس لئے فوت ہوگئے کیونکہ نبوت جاری نہیں ہے ختم ہوگئی ہے۔
کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔
جواب نمبر 2
اس روایت پر محدثین نے تفصیلی کلام کیا ہے اور اسے ضعیف (کمزور) قرار دیا ہے۔ لہٰذا جب قرآنِ مجید کی واضح نصوص اور صحیح احادیث موجود ہوں تو ایک ضعیف اور غیر معتبر روایت کو بنیاد بنا کر عقیدہ یا نظریہ قائم کرنا کسی صورت درست نہیں۔
1. شیخ ابن عبدالبر کہتے ہیں:
"مجھے نہیں معلوم کہ اس قول کے کیا معنی ہیں، کیونکہ یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو؟ اس لیے کہ حضرت نوحؑ کے بیٹے نبی نہیں تھے۔”
(انجاح، صفحہ 108)
2. علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
"اس روایت کا راوی ‘ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان’ متروک الحدیث ہے۔”
(تقریب التہذیب، صفحہ 25)
3. امام نوویؒ نے لکھا:
"یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے۔ بڑی بے تُکی بات ہے۔”
(موضوعات کبیر، صفحہ 58)
4. شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے فرمایا:
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ہے جو ضعیف راوی ہے۔”
(مدارج النبوت، جلد 2، صفحہ 677)
"یہ راوی منکر الحدیث ہے۔”
(تہذیب التہذیب، جلد 1، صفحہ 144–145)
جواب نمبر 3
اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی اور اس کے راوی پر بھی جرح نہ ہوتی پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی اور حضرت ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ جس طرح حضرت عمر ؓ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے۔
جواب نمبر 4
لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ
(اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔)
(سورہ الانبیاء، آیت نمبر 22)
اس آیت میں حرف "لو” استعمال کر کے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ زمین و آسمان میں ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اب یہ تو یقینی بات ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ نہیں، لیکن حرف "لو” استعمال کر کے اس کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔
اسی طرح اس روایت میں بھی بطور مثال ذکر ہے کہ ویسے تو نبوت اللہ کا ایک خاص عطیہ ہے، جو صرف اللہ کی مشیت سے کسی بندے کو عطا ہوتی ہے، لیکن اگر (بطور مثال) نبی کا بیٹا ہونا نبوت کے لیے کافی ہوتا، تو فلاں کا بیٹا بھی نبی ہوتا — یعنی اصل بات یہی ہے کہ نسبت، رشتہ یا خاندان نبوت کی ضمانت نہیں بن سکتا۔