اگر یہ کہا جائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین ہیں تو پھر آپ کے بعد کوئی نبی کیسے آ سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانے میں نبی مان کر اُتارنے کا عقیدہ رکھتے ہیں، تو ایسا عقیدہ غلط ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ چالیس سال تک وحی کا سلسلہ جاری رہے گا جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ عقیدہ بالکل غلط ہے اور آیت "وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ” اور حدیث "لَانَبِیَّ بَعْدِیْ” اس کی جھوٹائی پر واضح دلیل ہیں۔ ہم ایسے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور اس آیت پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔
ایک غلطی کاازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207

محترم قارئین! مرزا صاحب قادیانی کی اس تحریر کا مفہوم یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول آیت خاتم النبیین کے خلاف ہے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے، معصیت ہے۔ حالانکہ یہ بات یا تو مرزا صاحب کی کم علمی اور جہالت کا نتیجہ ہے یا پھر جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش۔ قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی نے نزول عیسیٰ علیہ السلام کو معصیت قرار دے کر اپنی خودساختہ نبوت کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تو آئیے پہلے مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت اور اس کی بنیاد کو دیکھتے ہیں۔ مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں:
"یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اِسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا، ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔”
حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154

مرزا صاحب قادیانی کی تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا دعویٰ نبوت کی اطاعت اور اتباع کی بنا پر تھا۔ مرزا صاحب نے اپنی تحریر میں کہا کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اللہ کے مکالمات سے انسانوں کو مشرف کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اللہ کا بولنے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ایک گروہ ہمیشہ ایسے رہے گا جن سے اللہ مکالمہ کرتا رہے گا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ اگر خدا نے انہیں "نبی” کا لقب دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کا نام "امتی” بھی رکھا گیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نبوت اصل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نتیجہ ہے۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 354,355


محترم قارئین! ایک طرف کامل اتباع کی بنا پر نبوت ملنے کا دعوی اور دوسری طرف 1890ء تک خود عقیدہ حیات مسیح پر برقرار رہنا اور بعد میں اسی عقیدہ کو معصیت اور شرک عظیم قرار دینا کیا اسی کا نام کامل اتباع ہے؟قارئین کرام! آئیے اب مرزا جی کی طرف سے 1890ء تک عقیدہ حیات مسیح پر قائم رہنے کے ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ“ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔
جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔”
“(براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593 از مرزا غلام احمدقادیانی)

مندرجہ بالا عبارت میں خاص طور پر لائق توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت قطعی الثبوت ہے اور مرزا صاحب نے ”اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے“ کہہ کر اس کی الہام تفسیر کی ہے۔ وہ بھی ان کے نزدیک قطعی ہے کہ یہ آیت حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری و جسمانی آمد کی پیشگوئی ہے۔ پس قرآن مجید کی آیت اور مرزا صاحب کی الہامی تفسیر دونوں مل کر حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری اور جسمانی آمد ثانی کو قطعی بنا دیتے ہیں، جس کے بعد مرزا صاحب کے ماننے والوں کے لئے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
اسی کتاب میں مرزا صاحب قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ
عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یَرْحَمَ عَلَیْکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا۔
خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور اور اس کی آنکھیں ہوگیا سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔“
براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 601، 602 از مرزا صاحب قادیانی


مرزا صاحب مندرجہ بالا تحریروں میں نہ صرف قرآنی آیت سے بلکہ اپنے الہام سے بھی سیدنا عیسی ابن مریم علیہم السلام کے دوبارہ نزول کا اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ لیکن جب حیات مسیح کا عقیدہ ترک کر کے وفات مسیح کا عقیدہ اپنایا تو موصوف نے لکھا کہ”بلکہ میں بھی تمھاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا۔“
براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ111

حالانکہ اسی براہین احمدیہ کے تعارف میں قلابے ملاتے ہوئے مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”کتاب براہین احمدیہ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت اور قدر و منزلت سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے“
مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 27 طبع جدید

مزید ایک مقام پر مرزا قادیانی ”ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے اشتہار شائع کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
”سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہر اًو باطناًحضرت رب العالمین ہے“
مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 77طبع جدید

ایک اور مقام پر آنجہانی مرزا قادیانی اپنی اسی کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
”اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر کھلی کے وہ ایسی کتاب ہے کہ جوقطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔
غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔ آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لیے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاش میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنیقاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہو گئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی۔
والحمد للہ علی ذالک
یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بنا کر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لیے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہو گئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا۔ اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بو عدہ انعام کثیر پیش کر کے حجت اسلام ان پر پوری کی گئی ہے۔ اور جس قدر اجزاء اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔
مندرجہ روحانی خزائن جلد 1ص 275-276

قادیانی دوستو! ذرا ٹھنڈے دل سے سوچتے ہوئے خود ہی انصاف کرو کہ جو کتاب مرزا غلام احمدقادیانی کے بقول اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر لکھی ہو اور جس کا متولی اور مہتمم خود رب العالمین ہو اور جس کتاب کو دیکھ کر بقول مرزا قادیانی خواب میں نبی کریم علیہ السلام نے خوشی کا اظہار کیا ہو کیا اس کتاب میں بیان کئے گئے عقائد غلط ہو سکتے ہیں اور پھر اس کتاب میں بیان دلائل کا ر د کرنے کے لے 1884ء کا دس ہزار روپے انعام بھی مقرر کیا گیا ہو۔قادیانی حضرات! ذرا سوچیے کہ اگر حیات مسیح کا عقیدہ غلط تھا تو مرزا قادیانی نے اسے اپنی کتاب میں کیوں شائع کیا جبکہ مرزا قادیانی کا دعوی ہے کہ”اللہ تعالیٰ اسے ایک پلک جھپکنے کے برابر بھی خطا پر قائم نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہرایک غلط بات سے محفوظ رکھتا ہے“
واللہ یعلم انی ما قلت الا ماقال اللہ تعالیٰ ولم أقل کلمۃ قط یخالفہ وما مسہا قلمی فی عمری“یعنی اللہ جانتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا رہا وہ وہی کہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جو خلاف خداوندی ہو اور مخالف خداوندی میری قلم سے کبھی سرزد نہیں ہوئی
جبکہ جو عقائد و نظریات مرزا قادیانی نے اس کتاب میں درج کیے ہیں ان کے بارے میں خود ہی رقمطراز ہے کہ”پانچواں اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے حقائق اور معارف کلام ربانی کے معلوم ہو جائیں گے اور حکمت اور معرفت اس کتاب مقدس کی کہ جس کے نور روح افروز سے اسلام کی روشنی ہے سب پہ منکشف ہو جائے گی کیونکہ تمام وہ دلائل اور براہین جو اس میں لکھی گئی ہیں اور وہ تمام کامل صداقتیں جو اس میں دکھائی گئی ہیں وہ سب آیات بینات قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اور ہر ایک دلیل عقلی وہی پیش کی گئی ہے جو خدا نے اپنی کلام میں آپ پیش کی ہے اور اسی التزام کے باعث سے تقریباً باراں سیپارہ قرآن شریف کے اس کتاب میں اندراج پائے ہیں اس حقیقت میں یہ کتاب قرآن شریف کے دقائق اور حقائق اور اس کے اسرار عالیہ اور اس کے علوم حکمیہ اور اس کے اعلیٰ فلسفہ ظاہر کرنے کے لیے ایک عالی بیان تفسیر ہے کہ جس کے مطالعہ سے ہر ایک طالب صادق پر اپنے مولیٰ کریم کی بے مثل و مانند کتاب کا عالی مرتبہ مثل آفتاب عالمتاب کے روشن ہو گا۔“
براہین احمدیہ مندرہ روحانی خزائن جلد 1ص 130،131


حضرات! اس کتاب میں جو عقیدہ حیات مسیح بیان کیا گیا ہے اگرغلط ہے تو پھر مرزا قادیانی کے دعویٰ ماموریت کو بھی غلط ماننا پڑے گا کیا آپ اس بات کو قبول کریں گے کہ مرزا قادیانی نے اس دور میں مامورمن اللہ اور مجدد ہونے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ باطل تھا کیا آپ یہ کہنا پسند کریں گے مرزا قادیانی نے اس کتاب کے حوالہ سے جو خواب نبوی کی بشارت بیان کی ہے محض دھوکہ اور پراپیگنڈہ تھا؟
محترم قارئین!اب ہم آپ پر یہ واضح کرتے ہیں کہ عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام امت مسلمہ کے عقیدہ ختم نبوت کے قطعًا منافی نہیں۔ لیکن اس سے پہلے مرزاصاحب قادیانی کی تحریر دوبارہ پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ کرشن قادیانی صاحب نے کس طرح مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ مرزا جی لکھتے ہیں کہ”اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیّٖن ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہؔ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پُرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ بے شک ایسا عقیدہ تومعصیت ہے اور آیت وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ اور حدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے۔ لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں۔“
ایک غلطی کاازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207

قارئین کرام! مرزا جی نے جو یہ لکھا ہے کہ ”اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے“ تو اس کی ایک وجہ امت مسلمہ کا سیدنا عیسی ابن مریم علیہما السلام کو اللہ کا نبی تسلیم کرنا دوسرا فرمان رسول ﷺ کے مطابق نزول کے بعد چالیس سال زندہ رہنے کا عقیدہ رکھنا ہے۔
جہاں تک تعلق ہے عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا نبی ماننے کا تو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں نبوت نبی ﷺ سے پہلے ملی ہے نہ کہ بعد میں اور سابقہ نبیوں پر ایمان لانا ایک مومن کی نشانی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں مومنین اور متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہوَ
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَااُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ(سورۃ البقرہ:۴)
اور جو اس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں
قُوْلُوٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ سورة آل عمران (3:136)
کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا اور جو ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم کسی ایک میں ان میں سے فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
الغرض عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے پر ایمان لائے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان اور مومن نہیں ہو سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام رسول کس قوم کی طرف بنا کر بھیجے گئے تو اللہ تعالی فرماتا ہے
قَالَ یُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ إِنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيِّرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُؤْمِنِينَ
(سورة آل عمران، آیت 49)
اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھائے گا اور آپ بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر بھیجے جائیں گے۔ آپ فرمائیں گے: "میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل بناؤں گا، پھر اس میں پھونک ماروں گا اور وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔ اور میں مادر زاد اندھے (اکمہ) اور کوڑھ کے مریض (ابرس) کو شفا دوں گا، اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کروں گا، اور تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا ذخیرہ کرتے ہو۔ بے شک اس میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں، اگر تم ایمان لاؤ۔”
تشریح:
یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور ان کے پیغام کی وضاحت کرتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے وہ علم دیا گیا تھا جس میں کتاب (آسمانی صحیفے)، حکمت، تورات اور انجیل شامل تھی۔ آپ کو بنی اسرائیل کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات:
- مٹی سے پرندہ بنانا: آپ اللہ کے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارا کرتے تھے، پھر وہ اللہ کے حکم سے زندہ پرندہ بن جاتا تھا۔
- اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتے تھے۔
- مردوں کو زندہ کرنا: آپ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
- غیب کی معلومات: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ قدرت تھی کہ وہ لوگوں کو بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں اور اپنے گھروں میں کیا ذخیرہ کر رہے ہیں۔
ایمان کی دعوت: یہ معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت اور اللہ کی قدرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان معجزات کے ذریعے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی، اور اس بات کو واضح کیا کہ اللہ کی قدرت سے یہ سب ممکن ہوا۔
شریعت محمدیہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام:
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول ہوگا تو وہ شریعت محمدیہ کے تابع ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی شریعت کے مطابق زندگی نہیں گزاریں گے، بلکہ وہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے۔
یہ مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ جیسے اگر صدر پاکستان کسی دوسرے ملک کا دورہ کرتا ہے، تو وہ پاکستان کی صدارت سے معزول نہیں ہوتا۔ وہ اس دوسرے ملک کے قانون کا پابند ہوتا ہے، حالانکہ وہ پاکستانی صدر ہی رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، وہ شریعت محمدیہ کے تابع ہوں گے، نہ کہ اپنی سابقہ شریعت کے مطابق۔
نتیجہ:
یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات، ان کی رسالت اور ان کی قوم کو اللہ کی ہدایت دینے کی کوششوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے مخصوص معجزات عطا کیے گئے تھے اور ان کے ذریعے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی گئی۔
محترم قارئین! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:یَمْکُثُ عِیْسٰی فِی الْاَرْضِ بَعْدَ مَا یَنْزِلُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ وَیَدْفِنُوْنَہ‘
عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد چالیس سال زمین پر رہیں گے پھر آپ فوت ہوجائیں گے۔ مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور دفن کریں گے۔
(مسند ابی داود طیالسی حدیث 2664)
محترم قارئین!مرزا قادیانی نے اسی روائت کو بنیاد بناکر یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چالیس سال وحی نبوت کو جاری مانتے ہیں۔ یہ بات تو میں واضح کر چکا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر بعد از نزول نازل ہونے والی وحی وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کہلائے گی۔قارئین کرام! مندرجہ بالا روایت کو مرزا جی بھی صحیح تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس تک دنیا میں رہے گا“
تحفہ گولڑویہ ص 127مندرجہ روحانی خزائن جلد 17ص 311

قادیانی حضرات!آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا اور اس کے بعد موصوف کتنا عرصہ زندہ رہے۔ مرزا قادیانی نے سب سے پہلے جو کتاب لکھی وہ براہین احمدیہ ہے جو 1297 ہجری میں چھپی جس میں وہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا مانتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ہی قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہوں گے اسی کتاب میں درج عقیدے کے بارے میں بعد میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ
”بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا
براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111مندرجہ روحانی خزائن جلد 21ص 111

آیات اور حدیث
قَالَ
وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
(الاحزاب: 40)
لَا نَبِيَّ بَعْدِي
(صحیح مسلم)
ترجمہ:
سب سے پہلی کتاب جس میں مسیح موعود کا دعویٰ کیا گیا وہ "فتح اسلام” ہے جس کے سرورق پر 1308ھ لکھا ہے۔ اس رسالے کی اشاعت پر امت مسلمہ کی طرف سے اعتراضات ہوئے تو مرزا صاحب نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے "ازالہ اوہام” نامی کتاب طبع کروائی جس کے سرورق پر بھی 1308ھ لکھا ہے۔ ان دو کتابوں سے پہلے مرزا صاحب کی کسی تحریر میں دعویٰ مسیحیت نہیں ملتا اور مرزا صاحب 1326ھ میں فوت ہوئے تو بتائیے اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد کتنی مدت تک زندہ رہے؟ چالیس سال نہیں بلکہ اٹھارہ سال تک زندہ رہے، تو یہ ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ غلط تھا کیونکہ وہ خود ہی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مسیح موعود اپنے دعویٰ کے بعد چالیس سال تک زندہ رہیں گے۔
محترم قارئین! اب ہم ایک اور طریقے سے آپ پر واضح کرتے ہیں کہ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ آیت وَ لَکِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي کے قطعاً منافی نہیں ہے۔
قارئین کرام! آئین پاکستان کے تحت ہر پاکستانی پر فرض ہے کہ جب بھی عدلیہ عدالت میں طلب کرے، عدالت میں حاضر ہو۔ یہ ایک عمومی قانون ہے، جبکہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر پاکستان کو اس عمومی قانون سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ عمومی قانون سے خصوصی استثنیٰ کی مثالیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک عام اصول بیان فرمایا ہے:
"کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَ نَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً وَ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ” (الانبیاء:35)
ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی اور بھلا ئی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لیے بھی نفس کا لفظ استعمال کیا ہے:
"لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ” (آلعمران:28)
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالی کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالی خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالی ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
"يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ” (آلعمران:30)
جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔ اللہ تعالی تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔
"قُلْ لِّمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِّلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ” (الأنعام:12)
آپ کہیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے۔ تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
"وَ إِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءً بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ” (الأنعام:54)
یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کر لیا ہے کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے بڑی رحمت والا ہے۔
محترم قارئین! میں نے چار آیات آپ کے سامنے پیش کی ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لیے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اب عمومی قانون کے تحت تو ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، لیکن اللہ تعالی کو کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالی نے اپنی ذات کو موت سے استثنی دیتے ہوئے فرمایا کہ:
"كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإكْرَامِ”
(سورة الرحمن: 26-27)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
محترم قارئین! ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا عمومی قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى”
(الحجرات: 13)
اے لوگو! ہم نے تم سب کو مرد و عورت سے پیدا کیا ہے۔
محترم قارئین! آپ سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر باپ سے پیدا کرکے اور آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کر کے اس عمومی قانون سے استثنیٰ دے دیا۔ بالکل اسی طرح عمومی قانون تو یہی ہے جو آیت وَ لَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي میں بیان ہوا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے نزول عیسیٰ علیہ السلام کی خبر دے کر اس عمومی قانون سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔