مرزاجونئیر کا موقف
صوفیاءِ کرام کی کتب میں ایسے کلمات موجود ہیں جو صریح کفر ہیں لہذا اہلسنت بریلوی علماء ان عبارات پر کفر کا فتوی لگائیں اور اپنے ان بزرگوں سے اعلانِ براءت کریں۔ ان تمام کتب کی پرنٹنگ بھی بند کروائیں۔


ذمہ داری کاتعین اس مسئلہ پر بحث کرنے سے پہلے ہم نفسِ مسئلہ پر غور کریں گے تاکہ پڑھنے والوں کو بات سمجھ آ جائے۔ مرزا کے اس پورے موقف میں دو علیحدہ علیحدہ مسئلے ہیں۔

  1. ایک ہے شرعی مسئلہ جو ان عبارات سے متعلق ہے۔
  2. دوسرا ہے کتب کی پرنٹنگ کا مسئلہ جس کا تعلق انتظام امور سے ہے۔

شرعی مسئلہ

مرزا انجینئراور اس کے فالورز دونوں کو ملا کر بحث کرتے ہیں اس لئے بحث کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر آپ عبارات کجوابی دلائل دے دیں گے تو وہ پرنٹنگ کا مسئلہ اٹھا لیں گے لہذا دونوں مسئلوں میں ذمہ داری کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ متنازعہ یا کفریہ عبارات کسی بھی کلمہ یا عبارت پر کفر کا فتوی دینا یا کوئی بھی کلام کرنا خالصتاً علماء کرام کا منصب ہے اور علماء بھی وہ جو شرعی علوم کے اعتبار سے تعلیم یافتہ ہونگے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ کسی بھی عبارت پر کفر کا فتوی لگانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ عبارت کس سے منسوب ہے۔ صوفیاءِ کرام سے منسوب عبارات کا کیس ایک عام مسلمان کے کلام کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ صوفیاءِ کرام اپنے زمانہ میں اپنے اعلی کردار اور مکمل شریعت کا پیکر ہونے کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی حضور صلی اللّٰه علیه وسلم کے اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ ہوتی ہے اس لئے ان کی عبارات پر گرفت کرتے وقت شرعی رخصت (شطحات، الہام، خواب، کرامت، مجذوب) کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ یہ وہ اصطلاحات ہیں جن پر فقہا و محدثین کے احکام موجود ہیں۔ ایسے علماء جو ان کو شرعی رخصت نہیں دیتے اور کفر کا فتوی لگاتے ہیں تب بھی فتوی ان بزرگوں پر نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کسی بھی مسلمان پر نام کے ساتھ فتوی لگانے کے لئے اس کلمہ کفر یا عبارت کا اس شخص یا بزرگ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہونا ضروری ہے۔ کوئی عبارت بھی بغیر سند کے کسی سے منسوب ہونے پر اس بزرگ کے لئے قابل گرفت نہئں ہوتی۔اصول حدیث کی طرح سند کا صحیح ثابت ہونا ضروری ہے۔اس مسئلہ میں ضعیف سند بھی قابل قبول نہیں۔

کتب کی پرنٹنگ

صوفیاءِ کرام کی کتب ہمیشہ ان کی زندگیوں کے بعد لکھی جاتی ہیں اور وہ اپنی زندگی میں اس کا خاص اہتمام بھی نہیں کرتے کیونکہ ان کا مقصد کلام کرنا نہیں بلکہ کام کرنا یعنی امت کی کردار سازی اور تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ لہذا ان کی تمام کتب کسی بھی صحیح سند سے ان تک نہیں پہنچتیں۔

ان کتب میں بعد میں آنے والے اپنی طرف سے بھی کچھ باتیں داخل کر دیتے ہیں اپنے ذوق، عقیدت یا کم علمی کی وجہ سے کچھ باتیں بڑھا چڑھا کر بھی لکھ دی جاتی ہیں۔ ایسے علماء جو ان بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں وہ ان عبارات پر شرعی رخصت دیتے ہوئے اس کی شرعی تاویل کرتے ہیں چونکہ وہ کفر کا فتوی نہیں دیتے اس لئے سند کی اہمیت ان کے لئے ضروری نہیں ہوتی جبکہ ان عبارات پر کفر کا فتوی وہی لگاتے ہیں جو صوفیاءِ کرام کے مخالف نکتہ نظر کے ہوتے ہیں۔ کفر کا فتوی لگانے والوں اور نہ لگانے والوں میں فرق یہ ہے کہ نہ لگانے والے مکمل شرعی اصول یعنی رخصت پر عمل کرتے ہیں جبکہ لگانے والے شرعی رخصت کے اصول کو بھی توڑتے ہیں اور بغیر سند کے فتوی لگاتے ہیں-

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ شرعی فتوی کونسا صحیح ہوگا۔ مرزا انجینیر فقہا و محدثین کے بنائے ہوئے شرعی اصولوں کو توڑ کر غیر شرعی فتوی لگا رہا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رح کے حوالہ سے ایک اہم نکتہ قابل غور ہے ۔ اسلامی تیرہ سو سالہ تاریخ میں خلفاء اور بادشاہوں کے دربار میں ہمیشہ بڑے بڑے علماء مشاورت کا کام کرتے تھے اور ان کے ہاں ایسے علماء و صوفیاء کا عدالتی ٹرائل ہوتا رہتا تھا جن کے فتوے متنازعہ ہوتے تھے ایک مناظرہ کی صورت میں دونوں فریقین کو اپنا موقف ثابت کرنے کا موقع دیا جاتا تھا۔

مامون الرشید اور ھارون الرشید کا وہ دور جس میں بڑے بڑے فقہا اور محدثین کی گرفت کی گئی منصور حلاج جیسے صوفی عباسیوں کی شریعت پسندی سے نہ بچ سکے تو ایسے میں حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ پر کسی قسم کا ٹرائل نہ ہونا دو ہی باتیں ثابت کرتا ہے یا تو یہ عبارات آپ کی نہیںاوریااس وقت کے علماء کے نزدیک ان عبارات سے کفر ثابت نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ حضرت بایزیدرحمۃ اللہ علیہ لادینوں سے مناظرے کرنے میں مشہور تھے۔

آپ کا چرچہ خلیفہ کے دربار تک تھا۔کُتب کی پرنٹنگ علماء کرام کا کام شرعی فتوی دینا ہے اور علماء کرام اپنے اپنے مسلک یا مکتبہ فکر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ کتابوں کی اشاعت کا کام علماء کے دائرہ کاریا ذمہ داری میں نہیں آتا اور نہ ہی کسی مسلک کا کوئی آفیشل پرنٹنگ پریس ہوتا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد یا جماعتیں اپنی ذمہ داری پر اشاعت کاکام کرتے ہیں اور کسی کی غلطی کا الزام سارے مکتبہ فکر کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی غلط چھپنے والی بات سارے مسلک کا نکتہ نظر ہوتا ہے۔ علماء کرام محض نشاندہی کر سکتےہیں۔

خلاصہ عبارات پر فتوی کےجوابی دلائل دینا علماء کا کام ہے انجینئر مرزا ان دلائل پر تو بات کر سکتا ہے مگر چونکہ اس کے پاس کفر ثابت کرنے کے لئے اصولی دلائل موجود نہیں اس لئے وہ اپنی روح راضی کرنے کے لئے چھلانگ لگا کر پرنٹنگ پریس والے مسئلہ پر آ جاتا ہے تو علماء کی ڈومین میں ہی نہیں آتا بالکل اسی طرح جیسے مزارات پر خرافات کا نہ ہی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق ہے اور نہ ہی بریلوی علماء ذمہ دار ہیں۔ صوفیا کرام کی کتب نہ صرف تما م مکاتب فکر کے اشاعتی ادارے چھاپتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں چھاپی جاتی ہیں۔ صوفیاء و اولیاء کرام سے محبت و عقیدت کی پاداش میں بریلوی مکتبہ فکرکے علما کو نشانہ بنانا مرزا کی زیادتی ہے۔ جہاں تک کُتب سے خرافات نکالنے کا تعلق ہے اس میں تمام مکتبہ فکر کے علماء مرزا کے ساتھ ہونگے۔اس کا ایک متفقہ لائحہ عمل بنا کر تمام علماء متنازعہ عبارات پر غور و فکر کر کے ان کی اشاعت پر پابندی کا فتوی دے سکتے ہیں۔ اس کارِ خیر کا آغاز ان کتب سے کیا جائے جو ماخذ دین (فقہا و محدثین کی کتب) میں سے ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے