بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین​ہمارے پیارے نبی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہے۔ اب جو کوئی بھی ظلی یا بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تووہ خبیث کافر،مرتد،زندیق اور واجب القتل ہے۔ اسی پر ساری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ پھر عہد صدیقی میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کثیر تعداد نے اپنی جانوں پر کھیل کر مسیلمہ کذاب کا خاتمہ کیا ۔عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے یہ پہلا وہ عظیم جہاد ہے جس میں بارہ سو(1200)سے زائد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جام شہادت نوش کر کے دنیا پر اس کی اہمیت وافادیت ہمیشہ کے لیے واضح فرما دی تھی۔ اسی طرح تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین نے ہر دور میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اپنا اولیں فرض سمجھا۔ برصغیر میں جب قادیان سے مرزا غلام احمد آنجہانی مسیلمہ پنجاب بن کر سامنے آیا تو اہل ایمان نے اس خبیث کا خوب خوب تعاقب کرکے ختم نبوت کے تحفظ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان محافظین ختم نبوت میں مجدد دین و ملت الشاہ الحافظ القاری اعلیٰ حضرت محمد امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1340ھ/1921ء) کا کردار نہایت روشن اور نمایاں رہا۔ بلکہ آپ کے سارے خانوادے کو ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے ہی سے شہرت ملی۔

مولانا احسن نانوتوی (م1312ھ/1894ء) نے جب حدیث اثر ابن عباس کی بنیاد پر اپنے اس عقیدے کا اعلان کیا کہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ بھی ہر طبقہ زمین میں ایک ایک "خاتم النبیین” موجود ہے تو اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ/1880ء) نے ان کی بروقت گرفت فرمائی اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو گمراہ اور خارج اہل سنت قرار دیا۔ نہ صرف بریلی بلکہ بدایوں اور رام پور کے مشاہیر علمائے کرام نے بھی آپ کے مؤقف کی حمایت میں اپنے فتاویٰ صادر فرمائے۔ یوں برصغیر میں فتنۂ انکار ختم نبوت کا باضابطہ پہلا رد سرزمین بریلی شریف کے حصے میں آیا۔ 1315ھ/1898ءمیں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر حجتہ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ/1942) نے کتاب”الصارم الربانی علی اسراف القادیانی” لکھ کر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دنیائے ارضی پر دوبارہ تشریف آوری قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کرکےمرزاآنجہانی کےمکروفریب کاپردہ فرمایا۔
1317ھ/1899ھ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے”جزاء اللہ عدوہ باباہ ختم النبوۃ”لکھ کر ختم نبوت کے مطلب ایمانی ایک سو بیس اور منکرین ختم نبوت پر تیس نصوص کے تازیانے برسائے اس پر عرب وعجم کے علمائے کرام نے تصدیقات بھی فرمائیں۔ 1320ھ/1902ء میں آپ نے”السؤ والعقاب علی المسیح الکذاب” لکھ کر دس وجوہ سے قادیانی آنجہانی کا کفر ظاہر و باہر کرکے فرمایا کہ یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہ مرتدین کے احکام ہیں(اعلحضرت علیہ الرحمۃ کی اس کتاب کی تسہیل و تخریج و اضافہ کے ساتھ بنام کتاب قادیانی کذاب مولف مفتی سید مبشر رضا قادری چھپ چکی ہے،ایڈیٹر )۔


1320ھ/1902ء میں سیف اللہ المسلول مولانا فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ (م1289ھ/1872ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی بلند پایہ کتاب”المعتقد المنتقد” پر نہایت ہی عالمانہ اندازمیں”المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد”کے نام سے عربی میں حواشی لکھے جن کا اردو زبان میں ترجمہ تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خان الازہری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1439ھ/2018ء)کے قلم سے شائع ہو چکا ہے۔ان حواشی میں بھی آپ نے گمراہ فرقوں اور ان کے سرغنوں کا ذکر کرتے ہوئے مرزا قادیانی آنجہانی کے بارے میں صاف صاف فرمایا:” یہ مرزا ان جھوٹے دجالوں میں سے ہے جن کے خروج کی خبر صادق ومصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی،یہ دجال مرزا قادیانی اس زمانے میں موضع قادیان واقع پنجاب میں نکلا”۔1323ھ/1905ءمیں برادر اعلیٰ حضرت شہنشاہ سخن مولانا محمد حسن رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1326ھ/1908ء) نے بریلی شریف سےختم نبوت کے تحفظ کے لئے رد قادیانیت پر پہلا باضابطہ ماہ وار رسالہ جاری کیا،اس کا تاریخی نام”قہرالدیان علی مرتد القادیانی” رکھا اس کے اجراء میں آپ کو کثیر احباب کا تعاون حاصل تھا ان میں سے پچاسی (85) معاونین کے اسمائے گرامی رسالے کے اندرون سرورق پر شائع ہوئے تھے اس کے پہلے شمارے میں قادیانیت کے رد میں آپ کا مقالہ”ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری”کا پہلا حصہ بھی شائع ہوا تھا۔اللہ اللہ ،برادراعلی حضرت،رد قادیانیت میں کتنے متحرک تھے!۔1324ھ/1906ءمیں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک اہم قدم یہ اٹھایا کہ برصغیر کے چند گستاخوں کی کفریہ عبارات پر علمائے حرمین شریفین کی اکثریت سے تصدیقات و فتاویٰ حاصل کئے اور پھر اسے” حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین”کا تاریخی نام دیا۔اس میں مرزا آنجہانی کی کفریات وارتداد پر فتویٰ کفر نمایاں اور سر فہرست ہے۔1326ھ/1908ءمیں آپ کی مشہور کتاب”المبین ختم النبیین” سامنے آئی جس میں آپ نے ثابت فرمایا کہ مشہور آیت ختم نبوت میں”الف لام”استغراقی ہے،عہد خارجی کا لام نہیں،یعنی ہر قسم کے خاتم ہمارے آقا و مولاخاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،آپ کے بعد کسی طرح کی نبوت کا امکان نہیں۔

1335ھ/1916ءمیں آپ کے قلم فیض اثر سے”باب العقائد والکلام "المعروف”گمراہی کے جھوٹے خدا”نامی رسالہ سامنے آیا اس میں آپ نے مختلف فرقوں کے”تصور توحید” کو طشت از بام فرمایا اور قادیانی آنجہانی کے”جھوٹے خدا”کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ قادیانی ایسے کو خدا کہتا ہے العیاذ باللہ۔ 1337ھ/1918ء میں مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک مرید کے خواب وبیداری میں کلمۂ طیبہ کی جگہ اور درود شریف میں بھی ان کا نام لینے پر زبر دست گرفت فرمائی اور "الجبل الثانوی علی کلیۃ التھانوی” میں ان کی خبر لی۔ 1339ھ/1920ء میں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کل ہند جماعت رضائے مصطفی” کا قیام عمل میں لایا۔اس کے اغراض و مقاصد میں،پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و عظمت کا تحفظ سر فہرست تھا ،جماعت نے اسلامی تشخص کے امتیاز وتحفظ اور فتنۂ ارتداد کے رد میں نہایت موثر کام کیا۔۔ مرزائیوں کی فتنہ سامانی کا جماعت رضائے مصطفے کے مناظرین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ،قادیانیوں کو جماعت کے مقابلے میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ جماعت رضائے مصطفے نے نشر واشاعت کے محاذ پر قادیانیت کے رد میں قلمی معرکۂ آرائیاں بھی جاری رکھیں۔ اسی جماعت کے زیر اہتمام رد قادیانیت میں اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی ان کے صاحبزادگان،خلفاء وتلامذہ اور متعلقین کی کتابیں بھی شائع ہو کر عالم ہوئیں۔ 3محرم الحرام 1340ھ کو پیلی بھیت سے شاہ میر خاں قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی خدمت میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر مرزائیوں کے چند اعترضات استفتاء کی صورت میں بھیجے آپ نے علالت کے باوجود” الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی”(1340ھ) جیسے تاریخی نام سے یہ رسالہ سپرد قلم فرمایا۔جس کے نام کا اردو میں ترجمہ "قادیانی مرتد پر خدائی تلوار” ہے۔

یہ رضا کے نیزے کی مار ہے۔ 25صفرالمظفر1340ھ کو عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ محافظ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔اللہ اللہ،آپ کا آخری قلمی جہاد بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے تھا۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ آپ کے فرزند اصغر مفتی اعظم علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں ایک یادگار رسالہ”تصحیح یقین بر ختم نبیین” رقم فرمایا۔ آپ کے خلفاء وتلامذہ نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔صدرالشریعہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب”بہار شریعت” کے آغاز ہی میں فتنۂ قادیانیت کی خوب نقاب کشائی فرما کر امت مسلمہ کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔اسی طرح آپ نے ہمارے ضلع اٹک کے معروف سنی عالم دین علامہ مولانا قاضی غلام گیلانی شمس آبادی رحمۃ اللہ علیہ (م1348ھ/1930ء) کی کتاب”تیغ غلام گیلانی برگردن قادیانی” اپنے اہتمام سے بریلی شریف سے شائع فرما کر عام کی تھی۔اسی طرح آپ کے خلیفہ مولانا قاضی عبد الغفور شاہ پوری رحمۃ اللہ علیہ نے”عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان” ،مبلغ اسلام علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ (م1373ھ/1954ء) نے مرزائیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور کتاب”مرزائی حقیقت کا اظہار” بھی لکھی۔۔ علامہ مفتی غلام جان ہزاروی رحمتہ اللہ علیہ (م1379ھ/1959ء) نے سیف رحمانی علی راس القادیانی” لکھی۔ علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ (م1380ھ/1961ء) نے "اکرام الحق کی کھلی چھٹی کا جواب”کرشن قادیانی کے بیانات ہزیانی”قادیانی مسیح کی نادانی اس کے خلیفہ کی زبانی” لکھی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ نعت”حدائق بخشش” میں بھی کئی ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے عقیدہ ختم نبوت مترشح ہے مثلاً:

سب سے اول سب سے آخر
ابتداء ہو،انتہاء ہو
سب تمہاری ہی خبر تھے
تم مؤخر مبتدا ہو
آتے رہے انبیاء کمال قیل لھم
والخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم
بزم آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اول کا جلوہ ہمارا نبی
فتح باب نبوت پہ ہے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام

آپ کے فرزند اکبر حجتہ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کےمجموعہ کلام

"تحائف بخشش”سےدوشعرملاحظہ ہوں:
ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شئ علیم لوح محفوظ خدا تم ہو
نہ ہو سکتے ہیں دو اول نہ ہو سکتے ہیں دو آخر
تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو

اسی طرح آپ کے فرزند اصغر مفتی اعظم علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ کلام” سامان بخشش” میں بھی عقیدہ ختم کے تحفظ کے لئے سامان موجود ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

تم ہو فتح باب نبوت
تم سے ختم دور رسالت
ان کی پچھلی فضیلت والے
صلی اللہ علیک وسلم،صلی اللہ،صلی اللہ۔
‌‌ تمہیں سے فتح فرمائی تمہیں پر ختم فرمائی!
رسل کی ابتدا تم ہو نبی کی انتہا تم ہو
تمہارے بعد پیدا ہو نبی کوئی نہیں ممکن
نبوت ختم ہے تم پر کہ ختم الانبیاء تم ہو

مملکت خداداد پاکستان میں تحریک ختم نبوت 1953ء اور تحریک ختم نبوت 1974ء میں بھی نمایاں کردار اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء وتلامذہ کی اولاد امجاد کا رہا۔بلکہ ان دونوں تحریکوں کی فعال قیادت بھی علمائے اہل سنت ہی تھی۔ ان میں مجاہد ملت علامہ محمد عبد السّتار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ،مولاناابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید خلیل احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ حافظ قاری شاہ احمد نورانی صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار تو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ان کی ان تھک کاوشوں سے ہی مملکت خداداد پاکستان نے 7/ستمبر 1974ء کو سرکاری طور پر بھی قادیانیوں اور ان کے گماشتوں کو کافر قرار دیا تھا۔ اسی 2017ءمیں بھی جب ختم نبوت کی شق کو چھیڑا گیا تو اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے عقیدت مند علماء میدان عمل میں سامنے آئے اور کلمۂ حق بلند فرمایا۔ان میں علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا قائدانہ کردار پوری دنیا نے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور ہماری موجودہ قیادت کو بیداری عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ و اولیاء امتہ وعلما ملتہ اجمعین۔۔نوٹ: رضا اکیڈمی ممبئی کے روح رواں اسیر مفتی اعظم الحاج محمد سعید نوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی اس تحریک وتشویق پر یہ مقالہ قلم بند کیا ہے کہ اس بار دس شوال المکرم یوم ولادت اعلیٰ حضرت کو”یوم تحفظ ناموس رسالت کے طور پر منایا جائے اور اسی حوالے سے اہل قلم اپنی تحریریں قلم بند فرمائیں۔
دعا گو ودعا جو،گدائے کوئے مدینہ شریف،احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ”خلیفۂ مجاز بریلی شریف”۔ مدیر اعلیٰ الحقیقہ،ادارہ فروغ افکار رضا و ختم نبوت اکیڈمی برھان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان پوسٹ کوڈ نمبر 43710(٣١/مئی ٢٠٢٠ء بروز اتوار بوقت ٤:٢٦ظہر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے