جب قادیانی قرآن و احادیث سے اجرائے نبوت پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو پھر چند بزرگان دین کی عبارات کو ادھورا پیش کرکے اس سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں ۔ قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا ۔
1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قادیانیوں کے نزدیک بزرگوں کے اقوال کو مستقل حجت نہیں تو وہ بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟؟
کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں۔

ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 538 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389

اس کے علاوہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے


نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ (مرزاقادیانی) اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کرے۔ یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ۔ اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی

حقیقتہ النبوۃ صفحہ 122

لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزاقادیانی کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو سمجھتے تھےقادیانیوں کی طرف سے شیخ ابن عربیؒ کی عبارات پر کیے گئے اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ

تمہیدی نکات

1. جو نئی شریعت لانے والا ہو، وہ نبی نہیں ہو سکتا۔
2. خود قادیانی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ہمیشہ سے ختم نبوت کا ایک ہی مفہوم رہا ہے، تو پھر وہ بزرگوں کی عبارات کیوں پیش کرتے ہیں؟
3. ہمارا دعویٰ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک بھی ایسا بزرگ نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضور ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے یا فلاں شخص نبی ہے۔
4. قادیانی تاقیامت کسی بھی بزرگ سے ایسی عبارت پیش نہیں کر سکتے جس میں یہ چار باتیں موجود ہوں:

  • حضرت عیسیؑ کی آمد کا ذکر نہ ہو۔
  • حضور ﷺ کے بعد کسی غیر تشریعی نبی کے اس امت میں آنے کی صراحت ہو۔
  • صرف اجزائے نبوت یا کمالاتِ نبوت کا ذکر نہ ہو بلکہ نبوت ملنے کی بات ہو۔
  • عبارت کا سیاق و سباق ختم نبوت مرتبہ نہ ہو، جسے قادیانی ختم نبوت زمانی کے لیے پیش کریں۔

قادیانی حضرات کی علمی بددیانتی

جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں، ان میں "اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ” کی قیدیں ہوتی ہیں۔ اور عقائد کے باب میں صرف نصِ صریح ہی قابلِ قبول ہوتی ہے۔
جو لوگ ایسی قیدوں والی عبارات سے استدلال کرتے ہیں، وہ دراصل تحریف و تاویل کے ذریعے عقائد میں دھوکہ دہی کر رہے ہوتے ہیں۔


شیخ ابن عربیؒ پر قادیانی اعتراض اور اس کا پس منظر

قادیانی حضرات ابن عربیؒ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:

"تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو۔ اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا۔”
الفتوحات المکیہ، جلد 2، صفحہ 3

قادیانیوں کی خود اپنی تضاد بیانی

مرزا قادیانی نے خود لکھا ہے:

  • "شیخ ابن عربی پہلے وجودی تھے۔”
    ملفوظات جلد 2، صفحہ 232
  • "وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے۔ یہ وجودی (شیخ ابن عربی وغیرہ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں۔”
    ملفوظات جلد 4، صفحہ 397

جب مرزا قادیانی خود شیخ ابن عربیؒ کو قابل نفرت اور دہریوں کے قریب قرار دیتے ہیں، تو پھر قادیانی حضرات کس منہ سے ان کی عبارات کو اپنے عقیدے کے ثبوت کے لیے پیش کرتے ہیں؟


قادیانی اعتراضات کا علمی و تحقیقی جواب

جواب نمبر 1: وحیِ نبوت کا مکمل انقطاع

"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر) نازل ہوتا تھا، وہ وحی بند ہوچکی۔ اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوچکا۔”
الفتوحات المکیہ، جلد 2، صفحہ 253

یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک وحیِ رسالت تاقیامت ختم ہے، اور اب کسی کو نبی یا رسول کہنا بھی جائز نہیں۔


جواب نمبر 2: حضرت عیسیؑ کے لیے بھی نبوت کی نفی

"وحی کا سلسلہ حضور ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔۔۔ سیدنا عیسیؑ جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے۔ آپ کے لیے صرف کشف و الہام ہوگا، جیسا کہ یہ مقام اولیاء کے لیے ہے۔”
الفتوحات المکیہ، جلد 3، صفحہ 238

شیخ ابن عربیؒ یہاں حضرت عیسیؑ کے لیے بھی انبیاء والی وحی کی نفی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک نزول کے بعد حضرت عیسیؑ نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ولی کی حیثیت سے ہوں گے۔


جواب نمبر 3: نبوت کا لغوی استعمال

"اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔”
الفتوحات المکیہ، جلد 2، صفحہ 254

یہاں نبوت کا لفظ صرف لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شہد کی مکھی کے لیے بھی وحی کا ذکر آیا ہے، اسی طرح اولیاء کے الہامات کو بھی بعض اوقات مجازاً نبوت کہا گیا ہے۔ مگر یہ حقیقی یا اصطلاحی نبوت نہیں۔


خلاصہ کلام

شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا عقیدہ واضح اور قطعی ہے کہ:

  • حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں۔
  • آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کی بھی نبوت یا رسالت ممکن نہیں۔
  • جو لوگ حضور ﷺ کے بعد نبوت کے قائل ہوں یا کسی کو نبی مانیں، وہ خارج از اسلام ہیں۔

اور جہاں جہاں ابن عربیؒ نے نبوت کا ذکر کیا ہے، وہاں وہ لغوی یا مجازی مفہوم میں ہے، نہ کہ اصطلاحی نبوت کے مفہوم میں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں بھی آتا ہے:

One thought on “ختم نبوت کے موضوع پر اکابرین امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ”
  1. بہت بہترین وضاحت ہے! قادیانی حضرات جب بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں تو ان کے سیاق و سباق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ شیخ ابن عربیؒ کا کہنا تھا کہ نبوت کا دروازہ بند ہے، اور وہ نبوت کو لغوی یا مجازی معنوں میں استعمال کرتے تھے، نہ کہ حقیقی نبوت کی طرح۔ مرزا قادیانی کا تضاد واضح ہے جب وہ ابن عربیؒ کی عبارات کو اپنے عقیدے کے حق میں پیش کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود انہیں ناپسندیدہ سمجھتے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے