حضور سرور کائناتﷺ کی بعثت کے وقت سر زمین عرب میں تین طبقے خصوصیت سے موجود تهے.
1۔ مشرکین مکہ
2۔ نصاریٰ نجران
3۔ یہود
اب ہمیں دیکهنا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے آپﷺ کی رسالت کے کیا فرائض تھے؟
آپﷺ کی بعثت سے قبل کے جو طریق منہاج ابراہیمی کے موافق تهے ان میں تغیر و تبدل نہ ہوا تها ان کو آپﷺ نے اور زیادہ استحکام کے ساتھ قائم فرمایا اور جن امور میں تحریف فساد یا شعائر شرک و کفر مل گئے تهے انکا آپﷺ نے بڑی شدت سے علی الا علان رد فرمایا.
جن امور کا تعلق عبادات و اعمال سے تها انکے آداب و رسومات اور مکروہات کو واضح کیا. رسومات فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور طریقے صالحہ کا عمل فرمایا اور جس مسئلہ شریعت کو پہلی امتوں نے چهوڑ رکھا تها یا انبیاء سابقہ نے اسے مکمل نہ کیا تها انکو آپﷺ نے تروتازگی دے کر رائج فرمایا اور کامل و مکمل کر دیا
آپﷺ سے قبل مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں جن امور پر اختلاف تها آپﷺ ان کے لیے فیصل (فیصلہ کرنے والے) اور حکم بن کر تشریف لائے آپﷺ پر نازل ہوئی کتاب قرآن مجید اور اسکی تفسیر (حدیث) کے ذریعے مختلف فیہ امور میں جو فیصلہ صادر ہو جائے وہ حتمی اور اٹل ہے (اس سے روگردانی و انحراف موجب ہلاکت و خسران اور اسے دل سے تسلیم کرنا سعادت مندی اور اقبال بختی کی دلیل ہے)
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ
(سورۃ النحل آیت نمبر 64)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں طبقات کے کون کون سے عقائد و اعمال صحیح یا غلط تهے اور انکا آپﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا۔
مشرکین مکہ
1)مشرکین مکہ شرک میں مبتلا تهے. بتوں کی پوجا کرتے تھے چنانچہ قرآن مجید نے تردید شرک اور اثبات توحید باری تعالیٰ پہ جتنا زور دیا ہے اور جس طرح شرک کو بیخ و بن سے اکھاڑا ہے .بتوں کی عبادت کی تردید اورابطال کا قرآن مجید نے جو انداز اختیار کیا ہے. کیا کسی آسمانی مذہب یا آسمانی کتاب میں اس کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟
نہیں اور ہر گز نہیں۔آپﷺ نے جس طرح معبودان باطلہ کو للکارا وہ صرف اور صرف آپﷺ ہی کا حصہ تها۔
2)مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے. یہ عمل انکا صحیح تها۔اسلام نے اسکو نہ صرف قائم رکھا بلکہ زمانہ نبوت سے تا ابدلآباد اسکواسلامی عبادت کا بہترین حصہ قرار دیا۔
وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ
اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔
طواف امر الہی اور حکم ربی ہے ہاں مشرکین نے طواف میں جو غلط رسومات شامل کر لی تهیں مثلاً ننگے طواف کرتے تهے یہ بیہودہ امر تها اسکو محو کر دیا.
3)مشرکین مکہ حجاج کو ستو پلایا کرتے تھے حجاج کی عزت و تکریم کرتے تھے. حجاج کو بیت اللہ کے زائرین کو، ضیوف میں اللہ سمجھتے تھے یہ امر صحیح تھا۔اس لیے اسکی توثیق فرمائی۔
جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ(توبہ 19(
حاجیوں کو پانی پلانا
اس سے قبل بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور اس میں حاجیوں کا پانی پلانا ذکر فرماکر ان امور کو خیر توثیق فرمائی.
4)مشرکین عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے. انکا فعل قبیح اور حرام تها. اس سے پیغمبر اسلام نے نہ صرف روکا بلکہ بچیوں کی تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سے نوازا بچیوں کے قتل پر قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَت۔ ۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ(تکویر 8،9)
اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا۔ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
غرض قرآن مجید نے مشرکین کے غلط عقائد و رسومات کو مٹایا اور صحیح کاموں کی توثیق کی اور انکو اور زیادہ مستحکم کیا۔
یہود کے عقائد
1)یہود بے بہود حضرت عزیرؑ کو ابن اللہ قرار دیتے تھے۔
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ (توبہ 39)
اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔قرآن مجید نے اسکی تردید کی.
تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدا۔
کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں ۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے ا ولاد ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔
(سورۃ مریم آیت نمبر 90 تا 92)
2)یہود حضرت عیسی بن مریمؑ کے قتل کا اعتقاد رکھنے اور
اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ
(النساء 157)
(ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا)جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قرآن مجید نے *وماقتلوه* (اور انہوں نے نہ اسکو مارا)کہہ کر قتل مسیحؑ کی مطلق نفی کرکے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی۔
3 )وہ حضرت مریمؑ کی پاکدامنی کے خلاف تھے۔قرآن مجید نے
وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ
(سورۃ آل عمران آیت نمبر 42)
(اور ( اب اس وقت کا تذکرہ سنو ) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ
: اے مریم ! یشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے ، تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے )
وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ(المائدہ آیت نمبر 75)
(اور اسکی ماں ولی ہے)کہہ کر یہود کے عقیدہ بد کی تردید فرمائی.
خود مرزا قادیانی کو بھی اعتراف ہے چنانچہ اس نے لکها کہ
یہودیوں کا حضرت عیسیؑ کی نسبت یہ خیال تها کہ وہ قتل بهی کیے گئے اور صلیب بھی دیے گئے بعض یہود کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گے اور بعض کہتے ہیں پہلے صلیب دے کر پھر انکو قتل کیا گیا
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 176 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 345)

غرض یہود کے ان غلط دعووں کو وماقتلوه وما صلبوه وما قتلوہ یقیناً کے زور دار الفاظ سے ڈنکے کی چوٹ پر قرآن مجید نے نہ صرف رد کیا بلکہ قتل مطلق اور صلب مطلق کی نفی کی تلوار سے ان دعووں کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیا وما قتلوہ یقیناً تو ایسا قرآنی ہے جس نے یہود کے دعوی کو ملیا میٹ اور زمین بوس کر دیا.
نصاری کے عقائد
1)نصاری تثلیث کے قائل تھے انکا یہ عقیدہ بدایتہ باطل تھا۔
قرآن مجید نے اسکا رد فرمایا
لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ
(سورۃ المائدہ آیت نمبر 73)
(بیشک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ ہے تین میں کا ایک
نیز فرمایا
وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ(المائدہ 73)
حالانکہ (کوئی معبود نہیں بجز ایک معبود کے)
2)نصاری الوہیت مسیحؑ کے قائل تهے انکا یہ عقیدہ بهی بداہتہ باطل تھا چنانچہ صراحتا قرآن مجید نے اسکی تردید فرمائی.
لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ
(آلمائدہ 72)
(وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے)
نیز فرمایا
مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ
(آلمائدہ 75)
(نہیں ہے مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول)
3)نصاری عیسی بن مریمؑ کو ابن مریم قرار دیتے تھے.
وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہ
(توبہ 30)
(اور نصاری نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے)
انکا یہ عقیدہ بھی بداہتہ باطل تھا. قرآن مجید نے صراحتاً اسکی بھی تردید فرمائی.
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔اَللّٰہُ الصَّمَد۔ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ
سورۃ الاخلاص
تو کہہ دو وہ اللہ ایک ہے اللہ بےنیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا اور نہیں اسکے جوڑ کا کوئی
نیز سورہ مریم کی آیات 90 تا 92 پہلے گزر چکی ہیں غرض نصاریٰ کے اس عقیدہ باطل کی بهی قرآن مجید نے تردید کی.
4)نصاری کا عقیدہ تها کہ مسیحؑ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد مسیحؑ علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا تها. قرآن مجید نے اسکی تردید کی وماصبلوہ (النساء 157)
کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بےنیاز ہوا.
چونکہ یہ عقیدہ اصولاً غلط تھا. چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی.
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔
(زلزال 7-8)
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اسے دیکھے گا۔
اسےمرزا قادیانی کو بهی تسلیم ہے کہ نصاریٰ کا عقیدہ تها کہ
مسیحؑ عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا۔
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 374 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 ص 292)

عیسائیوں کا کفارے کا عقیدہ غلط تھا تو قرآن نے اس کا رد کیا۔
عیسائیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اب وہ دوبارہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اس خیال پر تمام فرقے نصاری کے متفق ہیں کہ (سیدنا عیسیؑ) آسمان پر اٹھائے گئے۔”
ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 248 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225

لیکن قرآن پاک نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس عقیدے کو بیان کیا۔ تاکہ قیامت تک کے لوگوں کو پتہ چل سکے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے اور قرب قیامت واپس تشریف لانے کا ذکر ہے۔ ان آیات کے بارے میں تفصیلی گفتگو آنے والے اسباق میں ہوگی۔جب رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر دلائل آیئں گے ۔
فی الحال آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ۔ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔
اور (یہودیوں نے)یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے ، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے ، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ کو قتل نہیں کر پائے ۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار ، بڑا حکمت والا ہے۔
سورۃ النساء آیت نمبر 157،158
سیدنا عیسیؑ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں یعنی ان کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا اس بات کی نشانی ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ اس کا ذکر درج ذیل آیت میں ہے۔
وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ۔
ور یقین رکھو کہ وہ ( یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مانو ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔
سورۃ الزخرف آیت نمبر 61
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف جس کے لئے اتنی تمہید باندھنی پڑی ۔
قادیانیوں کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کا عقیدہ عیسائیوں کا تھا اور مسلمانوں نے اسے قبول کیا۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
ان عقیدہ حیاتہ قد جاءت فی المسلمین من الملتہ النصرانیہ
حیات عیسیؑ کا عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں سے آیا
ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660

ہم کہتے ہیں بالکل یہ عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالی نے آسمانوں پر اٹھالیا تھا اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف لایئں گے۔ جیسا کہ عیسائیوں کی کتب میں موجود ہے۔
1۔ خداوند یسوع سے کلام کرنے کے بعد (سیدنا عیسیؑ) کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔
مرقس باب 16 آیت 19
2۔ ان (حواریوں) سے جا ہوگیا اور آسمان پر اٹھالیاگیا۔
لوقا باب 24 آیت 52
3۔ اس وقت لوگ ابن آدم (سیدنا عیسیؑ) کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے ۔
مرقس باب 13 آیت 26
خلاصہ کلام
قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ بلکہ اس عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس عقیدے کے بارے میں آپﷺ کی قریبا 112 احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ عقیدہ حق ہے۔اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو پہلے تواتر کہا اور تواتر سے انکار کرنے والے کو اسلام کا انکار کرنے والا کہا پھر خود ہی تواتر کا انکار کر دیا۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے۔ حالانکہ خود مرزاقادیانی نے تسلیم کیا ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک سارے مسلمان سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کے قائل تھے۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اپنی زندگی کے 52 سال اسی عقیدے پر قائم رہا۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اس کو اس کتاب میں نقل کیا جس کتاب کو بقول مرزاقادیانی رسول اللہﷺ سے تائید حاصل تھی۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود ” محمد الرسول اللہ ” کا لقب پانے کے بعد بھی اسی شرکیہ عقیدے میں مبتلا رہا۔
مرزاقادیانی کہتا ہے کہ 1300 سال کے مسلمانوں کو جن میں صحابہ کرام ؓ بھی شامل ہیں ان کو پتہ نہیں چلا لیکن مجھے پتہ چل گیا کہ سیدنا عیسیؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ان کے کسی مثیل نے آنا تھا اور وہ مسیح میں ہی ہوں۔ اور میرے جیسے دس ہزار مسیح بھی آسکتے ہیں۔
مرزاقادیانی نے عقیدہ اور الفاظ وہی لئے ہیں جو 1300 سال سے مسلمانوں میں رائج تھے۔ لیکن ان کا مفہوم مرزاقادیانی نے 1300 سال سے مسلمانوں سے ہٹ کر لیا ہے ۔ اور یہ ہٹ کر مفہوم لینا ہمارے نزدیک تو کفر ہے ہی لیکن یہ مرزاقادیانی کے نزدیک بھی کفر ہے۔
(رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے بارے میں قرآن مجید سے دلائل اور احادیث مبارکہ آنے والے اسباق میں بتائی جائیں گی)