قادیانی حضرات ایک حدیث کو بنیاد بنا کر "خاتم النبیین” کے مفہوم پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جس طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو "خاتم المہاجرین” کہا گیا، حالانکہ ہجرت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، اسی طرح "خاتم النبیین” کا مطلب بھی آخری نبی نہیں بلکہ "سب سے افضل نبی” یا "مہر نبوت” ہونا چاہیے۔

آئیے سب سے پہلے وہ حدیث ملاحظہ کریں جس پر اعتراض کیا جاتا ہے

اطمئن یا عم (عباسؓ) فانک خاتم المہاجرین فی الھجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ۔

کنزالعمال ص ۶۹۹ ج۱۲ حدیث:۳۳۳۸۷

اگر حضرت عباسؓ کے بعد ہجرت جاری ہے تو حضورﷺ کے بعد نبوت بھی جاری ہے۔

اے چچا! آپ اطمینان رکھیں، کیونکہ آپ ہجرت میں مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں، جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔

❖ اس باطل استدلال کے جوابات


✅ حدیث کا پس منظر اور سیاق و سباق

یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی گئی جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ آپ کو اس بات کا افسوس ہوا کہ وہ ہجرت کی فضیلت سے محروم رہے۔ نبی کریم ﷺ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ:

طمئن یا عم فانك خاتم المهاجرين في الهجرة كما أنا خاتم النبيين في النبوة
(المعجم الكبير للطبراني، حدیث نمبر: 11707)

تشریح:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہ آخری صحابی تھے جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ چونکہ اس کے بعد مکہ فتح ہو گیا اور دارالاسلام بن گیا، لہٰذا اس کے بعد مکہ سے ہجرت کا دروازہ بند ہو گیا۔ اسی لیے آپ کو "خاتم المہاجرین” کہا گیا — یعنی مکہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر۔


✅ ہجرت کی شرعی نوعیت

اسلامی فقہ کے مطابق ہجرت ہمیشہ دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔ فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ ایک مستقل دارالاسلام بن گیا، اور رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا .

(صحیح البخاری، حدیث نمبر: 2783)

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے بیان کیا مجاہد سے ‘ انہوں نے طاؤس سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فتح مکہ کے بعد اب ہجرت ( فرض ) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو۔“

لہٰذا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بعد مکہ سے کوئی بھی شخص شرعی معنی میں "مہاجر” نہیں بن سکتا، کیونکہ مکہ مکرمہ قیامت تک دارالاسلام رہے گا۔ اس اعتبار سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ واقعی "خاتم المہاجرین” ہیں۔


"خاتم النبیین” کا مطلب سیاق و سباق کے مطابق سمجھا جائے گا

قادیانی اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر "خاتم المہاجرین” کے باوجود ہجرت جاری رہ سکتی ہے تو "خاتم النبیین” کے باوجود نبوت بھی جاری رہ سکتی ہے۔

یہ استدلال فاسد ہے، کیونکہ

خاتم المہاجرین” ایک مخصوص سیاق میں بولا گیا ہے (یعنی مکہ سے ہجرت کے سیاق میں)، جبکہ خاتم النبیین مطلقاً آیا ہے، اور قرآن مجید میں اس کا اطلاق ہر قسم کی نبوت کے اختتام پر ہے۔

ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين وكان الله بكل شيء عليما
(سورۃ الاحزاب: 40)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے