مرزا صاحب قادیانی مزید لکھتے ہیں کہ”ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّین اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔“
ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 207،208


قرآن کریم کی اس آیت میں کسی بھی قسم کی کسی پیشگوئی کا کوئی ذکر نہیں ہے نہ ہی اس سے قبل کسی مفسر یا محدث نے اس آیت کی ایسی کوئی تفسیر کی ہے۔ یہ صرف اور صرف مرزا جی نے اپنی خودساختہ نبوت کو جواز بخشنے کے لئے پنکچر لگایا ہے۔ دوسری بات مرزا جی نے لکھی کہ
نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔
اب اگر مرزا جی کی بات کو درست تسلیم کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا جی نے اپنے دست راست حکیم نوردین کو خود صدیق قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ”فاشکراللہ علی ما اعطانی کمثل ھذالصدیق الصدوق۔ الفاضل، الجلیل الباقر، دقیق النظر، عمیق الفقر المجاہد للہ“۔یعنی میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلی درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس اور اللہ کے لیے مجاہدہ کرنے والا ہے۔
“(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 30,31) اسی طرح قادیانیوں کے آفیشل اخبار الفضل 14 مارچ 1946 کے شمارے میں عبدالحمید آصف قادیانی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
مبارکہ بیگم نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولوی نور دین صاحب ایک کتاب لیے بیٹھے ہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں۔
مزید آگے چل کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ”کتنی شاندار صداقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کا آنا رسول کریم کا آنا ہے اور آپ کے بعد خلیفہ اول یعنی حضرت مولوی نور دین کا وجود نبی اکرم ﷺکے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود ہے حضرت مولوی صاحب کی وفات 13 مارچ 1914کو ہوئی اس وقت جماعت ایک یتیم کی طرح رہ گئی مگر وہ خداتعالی جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مومنین کی جماعت میں سے خلفاء چنتا رہے گا اس نے اپنے فضل سے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فوت ہوئے تو اس نے ہمیں صدیق عطا فرمایا اور جب صدیق فوت ہوا تو اپنے فضل سے ہمیں عمر عطا فرمایا۔
“(الفضل 14 مارچ 1946) اسی طرح بھارت شائع ہونے والے قادیانی میگزین ماہنامہ مشکوۃ جون 2011ء کے شمارے میں برہان احمد ظفر کی سالانہ جلسہ قادیاں پرکی جانے والی ایک تحریر شائع ہوئی جس میں حکیم نوردین کی بہت سارے معاملات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشابہت بیان کی گئی ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبوت کے لئے صرف سیرت صدیقی کی کھڑکی کھلی ہے تو حکیم نوردین جسے مرزا جی خود صدیق قرار دے رہے ہیں نبی کیوں نہ بنے؟ اس سے بڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود کیوں نہ نبی بنے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیرت صدیقی کے راستے نبوت کا دعوی کرنے والا (مرزا قادیانی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیسے بڑھ گیا جبکہ وہ خود لکھتا ہے کہ”میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر تو کیا بعض انبیاء سے بہتر ہے- مجموعہ اشتہارات جلد دوئم ص 396طبع چہارم از مرزاقادیانی