اب کوئی قادیانی یہ سوال بھی کر سکتا ہے کہ کیا توفی موت کے معنی میں کبھی استعمال نہیں ہوتا وغیرہ
تو اس کا جواب یہ ہے کہ توفی کے مجاذی معنی موت ہیں ہمیں اس بات سے انکار نہیں ، قادیانی جواب دیتے ہیں جب آپ مانتے ہو توفی کے مجاذی معنی موت ہیں تو کس دلیل سے اس آیت میں حقیقی معنی لیتے ہو اور مجاز نہیں ۔

جواب

اوپر والے حوالہ جات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ توفی کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں اب وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جس میں موت کو توفی کا مجاذی معنی بتایا گیا ہے ۔
توفی کے مجاذی معنی موت ہیں اس پر حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں

(و) من المجازِ: أَدْرَكَتْه ( {الوَفاةُ) : أَي (المَوْتُ) والمَنِيَّةُ. (تاج العروس (40 / 220)

ومن المجاز: أ……. وتوفّي فلان، وتوفّاه الله تعالى، وأدركته الوفاة.(أساس البلاغة (2 / 348)

اب رہا یہ سوال کہ اس آیت میں مجازی معنی کیوں نہیں لیا جا سکتا تو جواب عرض ہے کہ علماء بلاغت کے نزدیک مجازی معنی وہاں لیا جاتا ہے جہاں حقیقی معنی لینا صحیح اور ممکن نہ ہو جبکہ اس آیت میں حقیقی معنی لینا صحیح بھی ہے اور ممکن بھی پھر مجاذی معنی کی طرف کیوں جایا جائے ،
ویسے بھی قرآن اپنی تفسیر خود فرماتا ہے

فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ ( المائدہ: 117 )

میں توفی کے وہی معنی ہیں جو

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران: 55)

میں توفی کے ہیں ، فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ اس وعدہ کے پورا ہونے کا بیان ہے جو اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ میں کیا گیا تھا ۔
یہ پورا پورا لینے کا وعدہ اسی طرح پورا ہوا جس طرح کیا گیا تھا یعنی پورا پورا لینا بصورت رَافِعُکَ اِلَیَّ ۔ اور یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے بلکہ مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي بالرفع إلى السماء لقوله: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ (تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (2 / 151)

فَلَمَّا توفيتني} بالرفع إلى السمالء كما في قوله تعالى إِنّي مُتَوَفّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ(تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (3 / 101)

فلمَّا تَوَفَّيْتَنِي» والمرادُ منهُ: الوفاةُ بالرَّفعِ إلى السَّماءِ من قوله: {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ} [آل عمران: 55] .(اللباب في علوم الكتاب (7 / 624)

ما دمت فيهم فلما توفيتني} بالرفع إلى السماء لقوله تعالى: {إني متوفيك ورافعك إليّ} (آل عمران، 55)(السراج المنير (1 / 408)

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي أي: بالرفع إلى السماء. كما في قوله تعالى: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ [آل عمران: 55] .(تفسير القاسمي = محاسن التأويل (4 / 301)

مختصر یہ کہ
اصولی طور پر ایک لفظ کے حقیقی معنی ہی لینے چاہیے جب تک حقیقی معنوں لینا محال نہ ہو ، اسی لیے ہم فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کا حقیقی معنی کرتے ہیں یعنی ”جب تو نے مجھے پورا پورا لے لیا“ اور یہ پورا پورا لینا بصورت ” قبضتنى ورفعتنى إليك “ تھا ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی تفسیر خود کرتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کی تفسیر رَافِعُکَ اِلَیَّ اور بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ کی صورت میں قرآن کر چکا ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ توفی کے حقیقی معنی یعنی أخذ الشيء وافيا کو لیا جائے ۔
تیسری وجہ مفسرین اکرم نے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کے معنی ” قبضتنى “ اور ” رفعتنى “ جیسے الفاظ سے فرمائے ہیں اسی لیے ہم توفی کے حقیقی معنی لیے کے لیے مجبور ہیں ۔ ” قبضتنى “ و ” رفعتنى “ کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں

مَا دُمْت فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتنِي} قَبَضْتنِي بِالرَّفْعِ إلَى السَّمَاء(تفسير الجلالين (1 / 161)

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي، قَبَضْتَنِي وَرَفَعْتَنِي إِلَيْكَ،(تفسير البغوي – إحياء التراث (2 / 105)

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي اى قبضتنى إليك من بينهم ورفعتنى الى السماء(روح البيان (2 / 466)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے