جس میں مرزا صاحب اپنی وحی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں۔ تاکہ کرشن قادیانی جی کا دجل مزید کھل کر سامنے آجائے۔قارئین کرام! مرزا غللام احمد قادیانی صاحب 1897ء میں مولانا غلام دستگیر قصوری صاحب کے اشتہار کے جواب میں اپنی وحی کی ڈیفینیشن واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ”ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں اور اس سے زیادہ جو شخص ہم پر الزام لگاوے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتا ہے اور اگر قرآنی الہامات سے کوئی کافر ہو جاتا ہے تو پہلے یہ فتویٰ کفر سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر لگانا چاہئے کہ انہوں نے بھی قرآنی الہامات کا دعویٰ کیا ہے۔غرض جبکہ دعویٰ نبوت اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔

مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 2 اشتہار بعنوان مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب طبع جدید اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ مرزا صاحب تو یہاں اپنی وحی کی کیفیت تک بیان کر رہے ہیں کہ وحی نبوت نہیں وحی ولایت اور مجددیت ہے اب ہم مرزا جی کو ان کی ایک غلطی کا ازالہ کی اس تحریر کو کذب بیانی قرار نہ دیں تو کیا کریں؟اب مزید آگے بڑھتے ہیں مرزا صاحب قادیانی نے اپنی اسی کتاب میں براہین احمدیہ میں شائع ہونے والے الہامات جن میں نبی و رسول کے الفاظ آئے ہیں اپنی نبوت و رسالت پر دلیل قرار دیا ہے چنانچہ مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ”حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں اُن میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ دیکھو صفحہ 498 براہین احمدیہ۔ اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد اِسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 504 پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحہ 557 براہین میں درج ہے ”دنیا میں ایک نذیر آیا“ اس کی دوسری قرات یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔ اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔“

ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206,207

قارئین کرام! آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جس وقت مرزا صاحب قادیانی نے اپنے یہ الہامات براہین احمدیہ میں درج کئے تھے اس وقت اس کا کیا موقف تھا

مرزا صاحب قادیانی براہین احمدیہ کے صفحہ 499 پر اپنا الہام ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ

درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ

یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔“

براہین احمدیہ جلد1 صفحہ 593 از مرزا غلام احمد صاحب

براہین احمدیہ میں مرزا صاحب قادیانی ایک تو اسے آیت قرار دے رہے ہیں نہ کہ اپنا الہام میری اس بات پر مرزا صاحب کے یہ الفاظ ”یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔” شاہد ہیں پھر اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب قادیانی حیات مسیح کا عقیدہ اور عیسی علیہ السلام کا دوبارہ نزول بیان کر رہے ہیں۔

اب آپ خود ہی غور کیجیے کہ مرزا صاحب کا ایک غلطی کا ازالہ میں اسے اپنا الہام قرار دینا اور اس آیت سے اپنا رسول ہونا کیونکر ثابت کر سکتے ہیں فتدبروا۔مرزا صاحب قادیانی اپنے دوسرے الہام جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے براہین احمدیہ میں لکھتے ہیں کہ”جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جری اللہ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلل الانبیاء ہے اور ان کے غیر کوبطور مستعار ملتا ہے اور یہ حلل الانبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کوبغرض تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔“

براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد اول حاشیہ صفحہ 601

مرزا صاحب کی یہ تشریح بالکل واضح ہے کہ وہ نبی نہیں ہیں بلکہ غیر نبی ہیں اور مرزا جی واضح لکھتے ہیں کہ یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ مرزا جی کس طرح اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ میں کس طرح غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں اپنے الہام محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم۔ رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ متع اللّٰہ المسلمینببرکا تھم۔

فانظروا الی اٰ ثار رحمۃ اللّٰہ۔ وانبؤنی من مثل ھؤلآء ان کنتم صادقین۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ محمد ؔ خدا کا رسول ہے۔ اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو ان آثار کو دیکھو۔ اور اگر ان لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اسی طرح تائیدات الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین اسلام کے کسی اَور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں ہوگا۔”

براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد اول حاشیہ صفحہ 616,617

مرزا صاحب قادیانی نے اپنا یہ الہام براہین احمدیہ کے جس باب میں نقل کیا ہے اس کا نام ہے ”ان براہین کے بیان میں جو قرآن کریم کی حقیت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ” ہے اسی طرح مرزا صاحب کی اپنی تشریح اور وضاحت سے کہیں بھی یہ عندیہ نہیں ملتا کہ مرزا صاحب قادیانی کو اس الہام میں محمدرسول اللہ ﷺکا لقب دیا گیا ہو۔محترم قارئین! میری اس بات کی تائید مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے براہین احمدیہ پر لکھے گئے اس ریویو سے بھی ہوتی ہے جس کے بعض مندرجات پیش کرکے قادیانی مرزا جی کی صداقت بیان کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ اس ریویو میں لکھتے ہیں کہ”اور فریق دوم (لدھیانوی مدعیان اسلام) اپنی تکفیر کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ان الہامات میں مولف نے پیغمبری کا دعوی کیا ہے اور اپنے آپ کو ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں محل ٹھہرایا ہے اور ان آیات قرآنیہ کا جو خاص آنحضرت ﷺ اور انبیائے سابقین کے خطاب میں وارد ہیں مورد نزول قرار دیا ہے ازانجملہ چند آیات مع ترجمہ و تفسیر نشان محل بیان از قرآن و براہین احمدیہ پیش کی جاتی ہیں۔“

قارئین کرام! اس کے بعد مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ 11 آیات قرآنی جو براہین احمدیہ میں بطور الہام درج ہیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

ان آیات و فقرات کو دیکھ کر فریق مکفر کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ مولف کتاب ان آیات قرآنی کا جو انبیاء کے شان و خطاب میں وارد ہیں اپنے آپ کو مخاطب ٹھہراتا ہے اور ان کمالات کا جو(آیات یا عربی فقرات میں مذکور اور وہ انبیاء سے مخصوص ہیں)

محل ہونے کا مدعی ہے پھر اس کے دعوی نبوت میں کیا کسر رہی۔

مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں کہ

فریق دوم کی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ مولف براہین احمدیہ نے اپنے آپ کو بہت سی آیات قرآن کا (جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ،آدم و عیسی و ابراہیم علیہم السلام کے خطاب میں وارد ہیں اور ازانجملہ گیارہ آیات بذیل وجہ انکار فریق دوم بصفحہ 173 منقول ہو چکی ہیں مخاطب و مورد و نزول ٹھہرایا ہے اور ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں (جیسے وجوب اتباع، نزول قرآن، وحی رسالت، فتح مکہ، حوض کوثر زندہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا وغیرہ) محل قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف براہین احمدیہ کو درہردہ نبوت کا دعوی ہے۔ اس کے جواب دو ہیں اول یہ کہ مولف براہین احمدیہ نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا کہ قرآن میں ان آیات کا مورد نزول و مخاطب میں ہوں اور جو کچھ قرآن یا پہلی کتابوں میں محمد رسول اللہﷺ، عیسی،ابراہیم و آدم علیہم السلام کے خطاب میں خدا نے فرمایا ہے اس میرا خطاب مراد ہے اور نہ ہی یہ دعوی کیا ہے کہ جو خصوصیات و کمالات ان انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ مجھ میں پائی جاتی ہیں کلا واللہ ثم باللہ ثم تاللہ اس کتاب میں یا خارجْا مولف نے یہ دعاوی نہیں کیے اور ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب و مراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداتعالی نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔اپنے اوپر ان آیات کا الہام یا نزول کے دعوی سے ان کی مراد جس کو وہ صریح الفاظ یا آیات سے خداتعالی نے قرآن یا پہلی کتابوں میں انبیاء علیہم السلام کو مخاطب فرمایا ہے ان ہی الفاظ (آیات) سے دوبارہ مجھے بھی شرف خطاب بخشا ہے پر میرے خطاب میں ان الفاظ سے اور معانی مراد رکھے ہیں جو معانی مقصود و قرآن اور پہلی کتابوں سے کچھ مغائرت اور کسی قدر مناسبت رکھتے ہیں اور وہ معانی ان معانی کے اظلال و آثار ہیں۔“

قارئین کرام! مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ”بالجملہ جو اہل اسلام میں قرآن کہلاتا ہے اس کے نزول کا مولف کو دعوی نہیں ہے اور نہ ان کمالات کے حصول کا دعوی ہے جو انبیاء سے مخصوص ہے اور نہ معانی آیات قرآن سے ان کو تعرض ہے جس کے نزول و حصول کا ان کو دعوی ہے اور اس کی تفسیر و تاویل سے انہوں نے تعرض کیا ہے وہ بلحاظ مخاطب قرآن نہیں کہلاتا اور نہ ہی اس کا حصول خاصہ انبیاء ہے۔“میرا یہاں پر قادیانی حضرات سے سوال ہے کہ اگر مرزا صاحب کی ان کے ان الہامات سے دعوی نبوت مراد تھا تو انہوں نے اس وقت مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے لکھے گئے ریویو میں موجود ان تحریروں کی تردید کیوں نہ کی؟ اب مرزا صاحب کے الہام محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم پر مزید تبصرہ کرتے ہیں۔ قادیانی حضرات! مرزا صاحب کی اس تحریر پر میرا سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی انہی الفاظ میں فرماتا ہے کہ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْنَہُمْ اس آیت میں تو محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے مراد تو وہی محمد ﷺہیں جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو مرزا صاحب پر انہی الفاظ میں وحی نازل ہوئی تو مرزا صاحب نے دعوی کیا کہ محمد رسول اللہﷺسے مراد میں ہوں۔ تو مجھے بتائیے جب آپ کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا اس وقت بھی محمدرسول اللہﷺسے مراد مرزا صاحب کو لیتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں جبکہ مرزا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ ان کی وحی کے مطابق وہ خود محمدرسول اللہﷺ ہیں۔

اگر کوئی شخص کلمہ میں محمدرسول اللہﷺسے مراد مرزا صاحب کو بھی لے تو اس کا ایسا کرنا گستاخی اور کفر ہوگا یا کہ نہیں؟اسی حوالے سے دوسرا سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب نے خود کو عیسی ابن مریم بھی قرار دیا ہے عیسی علیہ السلام تو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے والد محترم کا نام عبداللہ تھا اور مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا اس اعتبار سے یہ تینوں وجود الگ الگ ثابت ہوتے ہیں تو آپ بتائیے مرزا صاحب کیا تھے غلام احمد قادیانی یا محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یا عیسی ابن مریم؟ اگر آپ کہو کہ مرزا صاحب روحانی طور پر تینوں شخصیات کے حامل تھے تو قادیانی حضرات! ہم اس بات کا ثبوت بھی پیش کریں گے مرزا صاحب قادیانی نے واضح الفاظ میں اپنے وجود کو محمد رسول اللہ ﷺکا وجود قرار دیا ہے۔قارئین کرام مرزا صاحب قادیانی نے اپنے نبی ہونے پر براہین احمدیہ میں شائع ہونے والے ایک اور الہام کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ مرزا جی لکھتے ہیں کہ”پھریہ وحی اللہ ہے 557 براہین پر ”دنیا میں ایک نزیر آیا جس کی دوسری قرات یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔“

ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207

اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔والسلامخاکسار مرزا غلام احمد از قادیان 7 اگست 1899ء(مکتوبات احمدیہ جلد دوم صفحہ 248,249 جدید ایڈیشن، مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 101 تا 104 پرانا ایڈیشن)محترم قارئین!

ویسے بھی اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہوَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (سورۃ سبا: 28) ترجمہ: اور نہیں بنا کر بھیجا ہم نے مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر (خوشخبری دینے والا) اور نذیر (ڈرانے والا)۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

قادیانی حضرات! اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صﷺتمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر کے بھیجے گئے ہیں۔ اب اگر ہم نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد قیامت تک کسی دوسرے کو بشیر و نذیر مانتے ہیں تو واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے آپ کو نبیﷺکے تمام لوگوں کے لیے بشیرونذیر ہونے پر اعتبار نہیں اور آپ قرآن کریم کی اس آیت پر مکمل ایمان نہیں رکھتے بلکہ شکوک و شبہات کا شکار ہیں یا پھر آپ یہ نہیں جانتے کہ نبی ﷺ تمام لوگوں کے لیے بشیرونذیر بنا کر بھیجیے گئے جیساکہ آیت کے الفاظ وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ سے ظاہر ہوتا ہے۔اب ہمارا سوال قادیانی حضرات سے یہ ہے کہ آپ لوگوں نے مرزا صاحب کو نزیر مان لیا کیا آپ کو نبی ﷺکے تمام لوگوں کے لیے بشیر و نزیر ہونے میں کوئی شک ہے یا قرآن کریم پر اعتبار نہیں یا آپ جانتے نہیں ہیں کہ نبی ﷺتمام لوگوں کے لیے بشیرونزیر بنا کر بھیجے گئے ہیں؟مرزا غلام احمد قادیانی اپنی اسی کتاب میں مزید لکھتا ہے کہ”جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ ”من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب“ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔“

ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ210،211

قارئین کرام! یہاں پر بھی مرزا جی صریحًا غلط بیانی سے کام لیا میں نے مرزا قادیانی کے انکار نبوت کے حوالے سے اوپر جتنی بھی تحریریں پیش کی ہیں کسی ایک تحریر سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا جی نے صرف اور صرف مستقل طورپر شریعت لانے والا نبی ہونے سے انکار کیا ہو۔ان تحریرات سے مرزا جی کانہ صرف مطلقًا انکار نبوت ثابت ہوتا ہے بلکہ اس نے تو اپنی وحی کی کیفیت تک بیان کی ہے کہ اس پر نازل ہونے والی وحی وحی نبوت نہیں وحی ولایت تھی۔ میرے موقف کی تائید بشیرالدین محمود اور مولوی سرور شاہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مرزا قادیانی کا بڑا بیٹا قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ اور مصلح موعود بشیرالدین محمود اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃمیں لکھتا ہے کہ”ہم نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ نبوت کے متعلق ایک ہی رہا ہے یا اس میں کبھی تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے ثابت کیا ہے کہ اس عقیدہ میں 1900ء کے بعد تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور سب سے آخری کتاب جس میں پہلے عقیدہ کا اظہار کیا گیا تھا تریاق القلوب ہے جو 1899ء کی ہے اور جو بعض موانعات کی وجہ سے 1902ء میں شائع ہوسکی۔“

(حقیقۃ النبوۃ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 398)

مرزا بشیر الدین محمود الفضل اخبار میں لکھتا ہے کہ”سیدنا حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور وفات کے بارے میں آپ کے عقیدہ میں تبدیلی ہوئی یعنی ایک زمانہ تک حضرت مسیح موعود ان کو زندہ سمجھتے رہے اور پھر ان کے فوت شدہ ہونے کا اعلان کیا اسی طرح اپنی نبوت کے بارے میں بھی حضور کے خیالات میں تغیر ہوا یعنی ایک زمانہ تک آپ اپنے آپ کو نبی کا خیال نہیں فرماتے تھے لیکن پھر اپنے آپ کو نبی یقین کرنے لگے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حضور (مرزا صاحب قادیانی) کی پہلے زمانہ کی تحریرات یہ ظاہر کرتی ہیں کہتے ہیں کے آپ نبوت کے مدعی نہیں لیکن آخری زمانہ کی تحریرات و تقریرات یہ ثابت کرتی ہیں آپ نبوت کے دعوے دار تھے۔

ہماری تحقیق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مسئلہ نبوت میں اپنے عقیدہ کو 1901 کے قریب تبدیل کیا ہے اور یہ عمل اس قدر واضح ہے کہ اس میں شک کرنے کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے چنانچہ مندرجہ ذیل امور ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔حضرت مسیح سے افضل ہونے کا دعویٰ:اول ایک زمانہ میں حضور اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اگر کوئی عمر آپ کی فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو اسے جزئی فضیلت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک غیر نبی کو نبی پر جزئی فضیلت ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد آپ پر ایسا زمانہ آیا جب آپ نے فرمایا کہ میں ہر شان میں مسیح سے افضل ہوں اور ان دونوں باتوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں نبی نہیں لیکن خدا تعالی کی وہی نے مجھے اس خیال پر نہ رہنے دیا اور بار بار نبی کا خطاب دیا تو میں نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دیا ہے چنانچہ جب حضور کے ان دو بیانات پر جن میں سے ایک میں آپ نے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح پر مجھے جزئی فضیلت ہے اور دوسرے میں فرمایا کہ میں ہر شان میں مسیح علیہ سلام سے بڑھ کر ہوں تناقض کا اعتراض ہوا تو حضرت نے اس کے جواب میں تحریر میں فرمایا کہ”اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔

اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خداتعالی نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا ان عقائد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمان پر سے نازل ہو گے۔ اس لیے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اہنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا وہ تو ہی ہے اور۔۔۔۔۔۔ کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح صدہا نشانیوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیث نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود ہوں-

اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالی کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔“

حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 153

مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ”ہماری تحقیق و تجربہ، یقین و مشاہدہ کی رو سے یہ نکتہ چینیاں (مذہبی ہوں یا پولیٹیکل) از سر تا پاء سوء فہمی یا دیدہ دانستہ دھوکہ دہی پر مبنی ہیں اور بجز دعوی الہام جو کچھ مولف کی نسبت کہا گیا ہے محض بے اصل ہے نہ مولف کو نبوت کا دعوی ہے نہ حصول خصوصیات و کمالات انبیاء کا۔

(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 6 صفحہ 175) مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں کہ

”فریق دوم کی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ مولف براہین احمدیہ نے اپنے آپ کو بہت سی آیات قرآن کا (جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ،آدم و عیسی و ابراہیم علیہم السلام کے خطاب میں وارد ہیں اور ازانجملہ گیارہ آیات بذیل وجہ انکار فریق دوم بصفحہ 173 منقول ہو چکی ہیں مخاطب و مورد و نزول ٹھہرایا ہے اور ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں (جیسے وجوب اتباع، نزول قرآن، وحی رسالت، فتح مکہ، حوض کوثر زندہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا وغیرہ) محل قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف براہین احمدیہ کو درہردہ نبوت کا دعوی ہے۔اس کے جواب دو ہیں اول یہ کہ مولف براہین احمدیہ نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا کہ قرآن میں ان آیات کا مورد نزول و مخاطب میں ہوں اور جو کچھ قرآن یا پہلی کتابوں میں محمد رسول اللہﷺ، عیسی،ابراہیم و آدم علیہم السلام کے خطاب میں خدا نے فرمایا ہے اس میرا خطاب مراد ہے اور نہ ہی یہ دعوی کیا ہے کہ جو خصوصیات و کمالات ان انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ مجھ میں پائی جاتی ہیں کلا واللہ ثم باللہ ثم تاللہ اس کتاب میں یا خارجْا مولف نے یہ دعاوی نہیں کیے اور ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب و مراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداتعالی نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔

اپنے اوپر ان آیات کا الہام یا نزول کے دعوی سے ان کی مراد جس کو وہ صریح الفاظ یا آیات سے خداتعالی نے قرآن یا پہلی کتابوں میں انبیاء علیہم السلام کو مخاطب فرمایا ہے ان ہی الفاظ (آیات) سے دوبارہ مجھے بھی شرف خطاب بخشا ہے پر میرے خطاب میں ان الفاظ سے اور معانی مراد رکھے ہیں جو معانی مقصود و قرآن اور پہلی کتابوں سے کچھ مغائرت اور کسی قدر مناسبت رکھتے ہیں اور وہ معانی ان معانی کے اظلال و آثار ہیں۔ “(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 7 صفحہ 218,219) قارئین کرام! مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ”بالجملہ جو اہل اسلام میں قرآن کہلاتا ہے اس کے نزول کا مولف کو دعوی نہیں ہے اور نہ ان کمالات کے حصول کا دعوی ہے جو انبیاء سے مخصوص ہے اور نہ معانی آیات قرآن سے ان کو تعرض ہے جس کے نزول و حصول کا ان کو دعوی ہے اور اس کی تفسیر و تاویل سے انہوں نے تعرض کیا ہے وہ بلحاظ مخاطب قرآن نہیں کہلاتا اور نہ ہی اس کا حصول خاصہ انبیاء ہے۔“میرا یہاں پر قادیانی حضرات سے سوال ہے کہ اگر مرزا صاحب کی ان کے ان الہامات سے دعوی نبوت مراد تھا تو انہوں نے اس وقت مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے لکھے گئے ریویو میں موجود ان تحریروں کی تردید کیوں نہ کی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے