مسلمانوں کا عقیدہ
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب دے سکے ۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔ ہمارا عقیدہ قرآن، حدیث، اجماع اور تواتر سے ثابت ہے۔
قادیانیوں کا عقیدہ
قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہود نے سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا اور چند گھنٹے وہ صلیب پر رہے۔ لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوسکے۔ بلکہ زخمی ہوگئے ۔
تین گھنٹے کے بعد آپؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا پھر آپؑ کو ایک غار میں لے جایا گیا وہاں آپؑ کی مرہم پٹی کی گئی۔ پھر آپؑ صحت یاب ہوگئے۔
اس کےبعد سیدنا عیسیؑ اپنی والدہ حضرت مریمؑ کو ساتھ لے کر فلسطین سے افغانستان کے راستے سے کشمیر چلے گئے ۔ کشمیر میں 87 برس زندہ رہے۔ پھر سیدنا عیسیؑ کی وفات ہوئی۔ اور کشمیر کے محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے۔
قادیانیوں کا عقیدہ نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ مرزاقادیانی نے اس عقیدے کو فرضی کہانیوں سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اس اقتباس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات، ان کے صلیب سے بچ نکلنے، اور ان کے آسمان پر نہ جانے کا نظریہ پیش کر کے عیسائی اور روایتی اسلامی عقیدے کی نفی کر رہا ہے، اور ساتھ ہی اپنی نبوت یا مسیح موعود ہونے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
(ضمیمہ حقیقة الوحی) روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 39

حالانکہ خود مرزاقادیانی کا 52 سال تک یہی عقیدہ رہا۔
حضرت عیسیٰؑ کی صلیب پر موت کا انکار: وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا لیا تھا۔ ان کے جسم پر زخم تو آئے، لیکن وہ موت نہیں تھی بلکہ ایک بے ہوشی یا غشی کی حالت تھی۔
عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا انکار: مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جسم سمیت آسمان پر نہیں گئے، بلکہ وہ بعد میں ہوش میں آ کر ہجرت کر کے کسی اور جگہ چلے گئے (مرزا صاحب کے مطابق کشمیر)، اور وہیں فوت ہوئے۔
عیسائی عقیدے کی تردید: وہ عیسائی عقیدے کو رد کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر جان دے کر کفارہ بنے۔ مرزا صاحب اسے غلط قرار دیتے ہیں۔
قرآن اور عقل کے خلاف عقیدوں کی تردید: مرزا صاحب کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا آسمان پر زندہ ہونا اور دوبارہ نزول ایک عقل اور قرآن کے خلاف بات ہے، اور یہ ایک غلط عقیدہ ہے۔
اپنے دعویٰ نبوت یا مسیح موعود کی بنیاد: چونکہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی واپسی کو جھٹلاتا ہے، اس لیے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ "مسیح موعود” خود وہ ہے، اور اسی بنیاد پر اپنا کردار پیش کرتا ہے۔
قادیانیوں سے مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے لئے چند اصول
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ گفتگو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بات آسانی سے سمجھ آجائے۔
اور اگر اپنی غلطی دوران گفتگو معلوم ہوجائے تو اس سے رجوع کر لینا چاہیئے ۔
جب کسی مسئلے پر 2 مختلف رائے رکھنے والے گفتگو کررہے ہوں۔ تو اس گفتگو کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کا ایک واحد طریقہ یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ دونوں کسی ایک ایسی بات پر اتفاق کرلیں جو دونوں کے درمیان مشترک ہو۔
مثلا جب رفع و نزول سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کے مسئلے پر مسلمانوں اور قادیانیوں کی گفتگو ہوتو فریقین قرآن کی آیات پڑھ کر خود اس کا ترجمہ و تشریح کرتے ہیں۔ اور اس طرح بحث برائے بحث بڑھتی جاتی ہے۔ اور گفتگو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
اس گفتگو کو منطقی انجام تک پہنچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرزاقادیانی سے پہلے 13 صدیوں کے مفسرین میں سے کسی ایک پر اتفاق کرلیں کہ اگر کوئی آیت ہم پیش کریں یا قادیانی پیش کریں تو اس کا ترجمہ تفسیر خود سے کرنے کی بجائے کسی ایسی شخصیت کا دیکھ لیا جائے جس پر مسلمان اور قادیانی متفق ہوں۔ اگر اس شخصیت نے قرآن کی اس آیت کی رو سے یہ مطلب لیا ہے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے تو ہم یہ بات تسلیم کر لیں گے اور اگر اس مفسر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اس آیت کی رو سے سیدنا عیسیؑ اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے تو اس بات کو قادیانی مان لیں۔
اتنی ساری تمہید اس لئے باندھنی پڑی ہے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعے سے جن کو ہر صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے۔ جنہوں نے قرآن کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے قرآن کی پاک تعلیم کو ہر ایک زمانے میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا۔”
ایام الصلح صفحہ 55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 288

اس کے علاوہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں۔ اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے۔ وہ ہر زمانے میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں۔”
کرامات الصادقین صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن ج6 pg62

ایک اور جگہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"برخلاف ان متبادر مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف میں ۔۔۔۔ اول سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔”
ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 744 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 501

ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتےگمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں ہے۔ خدا تعالٰی کے حکم سے انحراف ہے۔ وہ فرماتا ہے۔ من کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفسقون۔”
شہادة القرآن صفحہ 48 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 344

ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مجددوں کو فہم قرآن عطا کیا گیا ہے۔”
ایام الصلح صفحہ 55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 288

مرزا غلام احمد قادیانی کی ان تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
- مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین پر ایمان لانا فرض ہے۔
- مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین کو قرآن کا فہم عطا کیا گیا۔
- مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین نے ہر زمانے میں قرآن کے الفاظ اور مفہوم کی حفاظت کی ہے۔
- مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ قرآن کے معنی و مفہوم اپنی طرف سے گھڑنا یہی الحاد ہے۔
قادیانی کسی ایک مفسر و مجدد پر اتفاق کیوں نہیں کرتے؟
جب مرزا قادیانی نے خود یہ اصول تسلیم کیے ہیں تو قادیانی جماعت کسی ایک ایسے مفسر پر اتفاق کیوں نہیں کرتی جو مجدد بھی ہو اور قرآن کی تفسیر میں حضرت عیسیؑ کی وفات کا نظریہ پیش کرے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ:
- حضور ﷺ کے دور سے آج تک کوئی بھی مجدد یا مفسر ایسا نہیں گزرا جس نے یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیؑ فوت ہو چکے ہیں اور قربِ قیامت واپس نہیں آئیں گے۔
- بلکہ تمام مجددین و مفسرین نے ہمیشہ یہی لکھا ہے کہ حضرت عیسیؑ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور قرب قیامت زمین پر واپس تشریف لائیں گے۔
ہمارا چیلنج
ہم قادیانیوں کو چیلنج کرتے ہیں:
- قرآن کی کوئی بھی آیت پیش کریں۔
- پھر 13 صدیوں میں سے کسی ایک مجدد پر اتفاق کرلیں جسے مرزا قادیانی نے مجدد مانا ہو۔
- اگر اس مجدد نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہو کہ حضرت عیسیؑ فوت ہو چکے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے، تو ہم قادیانی مؤقف کو تسلیم کر لیں گے۔
قادیانی بھی یہ لکھ کر دیں کہ اگر اس مجدد نے لکھا ہو کہ حضرت عیسیؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا اور وہ واپس آئیں گے، تو وہ ہمارے مؤقف کو تسلیم کریں گے۔
لیکن!
قیامت تو آ سکتی ہے، مگر قادیانی کسی ایک مجدد پر اتفاق نہیں کریں گے۔
13 صدیوں کے مجددین کی فہرست
(جنہیں مرزا قادیانی نے خود مجدد تسلیم کیا ہے)
پہلی صدی
- عمر بن عبد العزیز
- سالم
- قاسم
- مکحول
دوسری صدی
- امام شافعی
- امام احمد بن حنبل
- یحییٰ بن معین
- شہب بن عبد العزیز
- ابو عمر مالکی
- خلیفہ مامون رشید
- قاضی حسن بن زیاد
- جنید بغدادی
- سہل بن رنحلہ
- حارث محاسبی
- احمد بن خالد الخلال
تیسری صدی
- قاضی احمد شریح
- ابو الحسن اشعری
- ابو جعفر طحاوی
- احمد بن شعیب
- ابو عبد الرحمن نسائی
- خلیفہ مقتدر باللہ
- حضرت شبلی
- عبید اللہ بن حسنین
- ابو الحسن کرخی
- امام بقی بن مخلد
چوتھی صدی
- امام باقلانی
- خلیفہ قادر باللہ
- ابو حامد اسفرانی
- حافظ ابو نعیم
- ابو بکر خوارزمی
- الحاکم نیشاپوری
- امام بیہقی
- ابو طالب ولی اللہ
- خطیب بغدادی
- ابو اسحق شیرازی
- ابراہیم بن علی بن یوسف
پانچویں صدی
- امام غزالی
- حضرت راعونی
- خلیفہ مستظہر باللہ
- ابو اسماعیل ہروی
- ابو طاہر سلفی
- شمس الدین سرخسی
چھٹی صدی
- فخر الدین رازی
- علی بن محمد
- عزالدین ابن کثیر
- امام رافعی
- شہاب الدین سہروردی
- محی الدین لوذی
- عبد الرحمن بن جوزی
- عبد القادر جیلانی
ساتویں صدی
- ابن تیمیہ
- ابن دقیق السعید
- شرف الدین سندی
- معین الدین چشتی
- ابن القیم جوزی
- عفیف الدین یافعی
- قاضی بدر الدین شبلی
آٹھویں صدی
- ابن حجر عسقلانی
- زین الدین عراقی
- قاضی بلقینی
- ناصر الدین شاذلی
نویں صدی
- امام جلال الدین سیوطی
- سخاوی
- سید محمد جونپوری
دسویں صدی
- ملا علی قاری
- محمد طاہر گجراتی
- محی الدین محی السنۃ
- علی متقی ہندی
گیارہویں صدی
- اورنگ زیب عالمگیر
- آدم بنوری
- مجدد الف ثانی (شیخ احمد سرہندی)
بارہویں صدی
- محمد بن عبد الوہاب
- مرزا مظہر جاناں
- سید عبد القادر حسنی
- شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
- امام شوکانی
- سید محمد بن اسماعیل
- محمد حیات سندھی
تیرھویں صدی
- سید احمد بریلوی
- شاہ عبد العزیز
- محمد اسماعیل شہید
- شاہ رفیع الدین
- شاہ عبد القادر
یاد رہے:
یہ تمام نام "عسل مصفٰی” میں موجود ہیں، جس کے مصنف مرزا خدا بخش قادیانی ہیں، اور اس کتاب کو مرزا قادیانی اور ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود سمیت کئی قادیانی اکابرین نے پسند فرمایا اور اس پر تقریظات لکھیں۔