قادیانیوں کا باطل استدلال
قادیانی ابن ماجہ کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے اور حضورﷺ کے بعد قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔
آیئے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔

دوسری حدیث پر قادیانی اعتراض اور علمی جواب

"قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ”
(یہ تو کہو کہ حضورﷺ خاتم النبیین ہیں، لیکن یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا)

"مجمع البحار صفحہ 85، تفسیر درمنثور جلد 12 صفحہ 64 طبع مصر”

قادیانی اس قول سے یہ باطل استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے نزدیک حضورﷺ کے بعد بھی نبوت جاری تھی، کیونکہ انہوں نے “لانبی بعدہ” کہنے سے منع فرمایا۔

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے علمی و تحقیقی جوابات


جواب نمبر 1:

حضرت عائشہؓ کا یہ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے سیاق میں تھا۔ اسی طرز کا قول حضرت مغیرہؓ بن شعبہ سے بھی منقول ہے۔

الف: حضرت عائشہؓ کا قول:

"حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑیں گے، نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی۔ یہ سب دیکھ کر اہلِ کتاب ان کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ عائشہ صدیقہؓ کا یہ قول ‘قولوا انہ خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ’ حضرت عیسیٰؑ کے نزول کو پیشِ نظر رکھ کر تھا، جو حدیث ‘لانبی بعدی’ کے منافی نہیں، کیونکہ مراد ہے کہ کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپؐ کی شریعت کو منسوخ کرے۔”
(تکملہ مجمع البحار، صفحہ 85)

ب: حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کا قول:

"شعبیؒ سے مروی ہے: ایک شخص نے حضرت مغیرہؓ کے سامنے کہا: ‘اللہ تعالیٰ محمدﷺ پر رحمت نازل کرے جو خاتم الانبیاء ہیں، ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔’ مغیرہؓ نے فرمایا: ‘خاتم الانبیاء کہنا کافی ہے، کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسیٰؑ دوبارہ آئیں گے، تو ان کا آنا محمدﷺ سے پہلے بھی ہے اور بعد میں بھی۔'”
(تفسیر درمنثور، جلد 12، صفحہ 64، طبع مصر)


جواب نمبر 2:

حضرت عائشہؓ کا قول فرمانِ نبوی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔

"انا خاتم النبیین، لا نبی بعدی”
(فرمان نبوی ﷺ)

قولِ صحابہؓ اور قولِ نبویؐ میں تضاد ہو تو حدیثِ صحیح کو ترجیح حاصل ہے۔
عائشہؓ کا قول بے سند اور ضعیف ہے، جبکہ “لا نبی بعدی” متعدد صحیح اسناد سے مروی ہے۔
لہٰذا، بے سند قول کو دلیل بنانا علمی دیانت کے خلاف ہے۔


جواب نمبر 3:

خود حضرت عائشہؓ سے صحیح روایت موجود ہے:

"لم یبق من النبوۃ بعدہ شیء الا المبشرات”
(حضور ﷺ کے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا، سوائے اچھے خوابوں کے)
(کنزالعمال، حدیث نمبر 41423)

یہ قول حضرت عائشہؓ کی طرف سے ختم نبوت پر واضح گواہی ہے۔


جواب نمبر 4:

قادیانی اس قول کو ادھورا نقل کرتے ہیں اور سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔

"ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ علیہ السلام”
(تکملہ مجمع البحار، صفحہ 85)

حضرت عائشہؓ کا مقصد صرف یہ تھا کہ نزولِ عیسیٰؑ کے پیش نظر “لانبی بعدہ” جیسے الفاظ میں احتیاط کی جائے تاکہ کسی غلط فہمی کا احتمال نہ رہے۔ وہ قطعاً کسی نئی نبوت کے قائل نہ تھیں۔


جواب نمبر 5:

علماء نے حضرت عائشہؓ کے اس قول کی مختلف توضیحات بیان کی ہیں:

پہلا معنی:

"لا نبی مبعوث بعدہ”
(حضورﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطا نہیں ہوگی)
(مرقات، حاشیہ مشکوٰۃ شریف)

دوسرا معنی:

"لا نبی خارج بعدہ”
(حضورﷺ کے بعد کوئی نبی ظہور پذیر نہیں ہوگا)
یہ معنی نزولِ عیسیٰؑ کے خلاف ہوگا، اس لیے حضرت مغیرہؓ نے اس لفظ سے احتیاط فرمائی۔

تیسرا معنی:

"لا نبی حیّ بعدہ”
(حضورﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں رہے گا)
یہ معنی حضرت عائشہؓ کے قول کے سیاق کے مطابق ہے، کیونکہ خود ان سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی روایت منقول ہے۔


جواب نمبر 6:

قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی خود اپنی تحریر میں حدیث کے قبول یا رد کے اصول بیان کرتے ہیں:

"دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے علاوہ) صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں”
(آریہ دھرم، روحانی خزائن، جلد 10، صفحہ 60)

جب مرزا قادیانی کے اپنے اصول کے مطابق قرآن و صحیح بخاری و مسلم کی مخالفت کرنے والی روایت قابل قبول نہیں، تو پھر بغیر سند منقول قول سے دلیل پکڑنا محض دجل اور فریب ہے۔

جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب بے سند قول صحیحین کے مخالف قابل قبول ہوگا؟
نیز مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا

کتاب البریہ صفحہ 184 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 217


کیا حضرت عائشہ صدیقہؓ اتنی مشہور و صحیح حدیث کے خلاف کوئی بات فرما سکتی ہیں؟

یہ بات انتہائی غیر منطقی اور خلافِ عقل ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ جیسی فقیہہ، محدثہ اور رسول اللہ ﷺ کی قریبی زوجہ محترمہ — جو قرآن و حدیث کی سب سے بڑی عالمہ اور محافظ تھیں — وہ ایسی حدیث کے خلاف کوئی بات فرمائیں جسے خود حضور نبی کریم ﷺ نے بارہا واضح انداز میں بیان فرمایا:

"أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی”
(میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں)
(مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد، صحیح مسلم وغیرہ میں روایت موجود ہے)

خود حضرت عائشہؓ سے بھی ختم نبوت کے حق میں صحیح اور متصل روایات منقول ہیں، جیسا کہ:

"لم یبق من النبوۃ بعدہ شیء إلا المبشرات”
(حضور ﷺ کے بعد نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا سوائے سچے خوابوں کے)
(کنزالعمال، حدیث نمبر 41423)

کیا یہ ممکن ہے کہ جن کی تعلیمات اور روایات نے امت کو قرآن و سنت کے علم میں روشنی دی، وہ خود ایسی صریح، قطعی اور متواتر حدیث کے خلاف کوئی جملہ کہہ دیں؟
یہ قادیانیوں کا علمی بددیانتی پر مبنی فریب ہے، جو سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے اقوال کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ کا مذکورہ قول اگر واقعتاً ثابت بھی ہو تو وہ صرف نزولِ عیسیٰؑ کے مخصوص سیاق میں احتیاطاً کہا گیا جملہ ہے، نہ کہ ختم نبوت کی نفی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے